Maktaba Wahhabi

583 - 611
میدانِ جہاد میں نکلا اور کوئی چیز واپس نہ لایا (یعنی جان و مال سب اللہ کی راہ میں قربان کر دیا اور شہید ہوگیا)۔‘‘ اندازہ فرمائیں کہ شہید کے عملِ شہادت اور مالی قربانی دینے کے سوا دوسرا کوئی عمل اِن دس دنوں میں کیے گئے نیک عمل کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ دس سے مراد ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی راتیں ہیں اور طاق سے مراد یومِ عرفہ ہے اور جفت سے مراد نحر و قربانی کا دن ہے، کیونکہ وہ دسواں دن ہوتاہے۔ اس ماہ ذوالحجہ اور پھر اس کے پہلے دس دنوں کی فضیلت و برکت اپنی جگہ، خاص یومِ عرفہ یعنی ۹/ذوالحجہ کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت فضیلت بیان فرمائی ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں نو ذوالحج کے روزے کے بارے میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’یوم عرفہ کا روزہ دوسالوں کے گناہوں کا کفارہ بن جاتاہے، ایک گزرا ہوا سال اور دوسرا آیندہ سال۔‘‘[1] لیکن یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ جو لوگ حج کر رہے ہوں اور نو ذوالحج کے دن میدانِ عرفات میں موجود ہوں، ان کے لیے یومِ عرفہ کا روزہ رکھنا جائز نہیں، کیونکہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شک گزرا کہ میدانِ عرفات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہیں یا نہیں؟ بعض لوگوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہیں اور بعض نے کہا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے نہیں ہیں۔ چنانچہ حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دودھ کا پیالہ بھیجا۔ ((فَشَرِبَ وَھُوَ یَخْطُبُ النَاسَ بِعَرَفَۃَ )) ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دودھ پی لیا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ عرفات میں لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے۔‘‘ صحیح بخاری ومسلم وغیرہ کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میدانِ عرفات میں حجاج کا روزہ رکھنا خلافِ سنت ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کے میدان میں یومِ عرفہ(حج) کا روزہ رکھنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
Flag Counter