Maktaba Wahhabi

532 - 611
اسے گناہوں کی لذتوں اور خواہشوں سے نکلنے کی اجازت دے سکتا ہے اور نہ شیطان کے اس بہکاوے سے بچ سکتا ہے کہ عمر کے آخری حصے میں توبہ کرلینا، اس طرح اس کی آرزوئیں کم نہیں ہوسکتیں، چاہے اس کی عمر کتنی ہی لمبی ہو، بلکہ جس قدر انسان بڑا ہو تا ہے اس کے اندر مال اور لمبی عمر کا لالچ بڑھتا ہے، بلکہ آپ اس کی طمع و آرزو کی کوئی حد نہیں پائیں گے۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’آدم کا بیٹا جس قدر بڑا ہوتا ہے، اس کے ساتھ دو چیزیں اور بڑی ہوتی جاتی ہیں، ایک مال کی محبت اور دوسری لمبی عمر کی خواہش۔‘‘[1] اللہ عزوجل نے اہلِ ایمان کو، جو تمام مخلوقات میں سب سے بہترین مخلوق ہیں، مخاطب کرکے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ اپنے ایمان، صبر، ہجرت اور جہاد کے بعد توبہ کریں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: { وَتُوْبُوْٓا اِِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} [النور: ۳۱] ’’اے مومنو! تم سب کے سب اللہ سے توبہ و استغفار کرو، تاکہ تم کامیاب ہوسکو۔‘‘ آپ کے دل نے توبہ کا صحیح اہتمام کرلیا تو فلاح و کامیابی اور دنیا و آخرت کی سعادت آپ کا مقدر بن جائے گی اور اللہ تعالیٰ کی طرف متو جہ ہونے میں آپ اپنے اندر ایک عجیب جذبہ محسوس کریں گے۔ اس لیے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے آگے بڑھیں اور اپنے اللہ سے توبہ و استغفار کریں۔ مومنوں کے بر عکس ظالموں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجرات (آیت: ۱۱) میں بیان فرمایا ہے: {وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ} ’’اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں۔‘‘ لیکن اہل ایمان اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں، ہر معا ملے میں اپنے اللہ سے ڈرتے ہیں اور اپنی غلطیوں اور کوتا ہیوں پر نادم ہو کر اپنے رب سے توبہ و استغفار کرتے رہتے ہیں۔ توبہ صرف منکرات و معصیات کرنے پر ہی نہیں ہوا کرتی، بلکہ نوافل کے چھوڑنے اور خیرکے کاموں پر سستی کرنے پر بھی توبہ ہوتی ہے، اسی طرح موکدہ سنتوں کو ادا کرنے میں کوتاہی کرنے سے بھی توبہ ہے اور اپنی غفلت اور قیمتی وقت کو ضائع کرنے پر بھی توبہ کرنی چاہیے۔ میری پیاری بہنو (اور بھائیو!) ویسے تو انسان کی ساری زندگی توبہ کے لیے مفتوح اور کھلی
Flag Counter