Maktaba Wahhabi

449 - 611
بن جائیں گے جس کی وجہ سے ان کے لیے [سجدے میں ] جھکنا ناممکن ہوجائے گا۔‘‘[1] قیامت کے دن مجرم سر جھکائیں نہایت ذلت و رسوائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہوں گے کیونکہ دُنیا میں تکبر و سرکشی کی وجہ سے ان کی گردنیں اکڑی ہوئی تھیں، صحت اور سلامتی کی حالت میں جب انھیں عبادت کے لیے بلایا جاتا تھا تو اللہ تعالیٰ کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیتے تھے، اس لیے ان کی کمر تختہ بن جائے گی۔ ان کے لیے یہ ممکن ہی نہ ہوگا کہ وہاں عبادت گزار ہونے کا جھوٹا مظاہرہ کر سکیں، اس لیے وہ سجدہ کرنا چاہیں گے تو چت گرپڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن انھیں یہ سزادینا ہے، اس لیے وہ ان کے اور ان کے سجدے کے درمیان حائل ہوگیا، اس لیے کہ جب انھیں دنیا میں سجدے کے لیے بلایا گیا تھا تو انھوں نے موذن کی پکار کا جواب نہیں دیا تھا۔ اس سے یہ واضح ہوگیا کہ منادی کا جواب مسجد میں نمازِ با جماعت ادا کرنا ہے۔ موذن کی پکار کی اہمیت کا اندازہ اللہ کے ولیوں کے طرزِ عمل سے بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت عامر بن عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے بارے میں آتا ہے کہ وہ بسترِ مرگ پر تھے، زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ ان کے گھر والے ان کے پاس بیٹھے رو رہے تھے اور وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھے کہ ان کے کانوں میں مغرب کی اذان کی آواز پڑی، ان کی سانس ان کے حلق میں پھنس رہی تھی، نزع کا عالم شدید تھا، تکلیف حد سے زیادہ بڑھ چکی تھی۔ اذان کے بعد اپنے آس پاس موجود لوگوں سے کہا کہ میرا ہاتھ پکڑو، لوگوں نے کہا کہ کہاں جائیں گے؟ کہا: مسجد۔۔۔! لوگوں نے کہا کہ آپ اس حال میں مسجد جائیں گے؟ انھوں نے جواباً کہا: ’’سُبْحَانَ اللّٰہ‘‘ میں نماز کے لیے موذن کی اذان سنوں اور لبیک نہ کہوں؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔ تم لوگ میرا ہاتھ پکڑو، دو آدمی انھیں مسجد لائے، ایک ہی رکعت امام کے ساتھ ادا کی پھر سجدے ہی میں ان کی روح پرواز کر گئی اور وہ سجدے کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ سبحان اللہ۔۔۔ کیا قسمت ہے؟![2] جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی اہمیت کا اندازہ اُس حدیث سے بھی ہوتا ہے جس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’ایک نابینا آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ میری راہنمائی کرنے والا کوئی
Flag Counter