Maktaba Wahhabi

448 - 611
’’اور (اے پیغمبر!) جب تم (مجاہدین کے) لشکرمیں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمھارے ساتھ مسلح ہو کر کھڑی رہے، جب وہ سجدہ کر چکیں تو پرے ہو جائیں پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے اور ہوشیار اور مسلح ہو کر تمھارے ساتھ نماز ادا کرے۔ کافر اس گھات میں ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہو جاؤ تو تم پر یک بارگی حملہ کر دیں۔‘‘ قرآنِ کریم کی اس آیت سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حالتِ جنگ بلکہ عین دورانِ جنگ میں بھی نمازِ باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اب آپ خود اندازہ کریں کہ حالتِ امن و سکون میں کیا حکم ہونا چاہیے؟ نمازِ باجماعت کی اگر کسی کو معافی مل سکتی تھی تو وہ دشمن کے سامنے صف آرا ان لوگوں کو مل سکتی تھی جنھیں دشمن کے حملے کا ہر وقت خطرہ لگا رہتا تھا، کیونکہ میدانِ جہاد ترکِ جماعت کا سب سے زیادہ، مناسب اور اہم موقع ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے کسی شرعی مجبوری کے بغیر ترکِ جماعت کی رخصت نہیں دی۔ نمازِ باجماعت ترک کرنے والوں کے متعلق اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے: { یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِِلَی السُّجُوْدِ فَلاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ . خَاشِعَۃً اَبْصَارُھُمْ تَرْھَقُھُمْ ذِلَّۃٌ وَقَدْ کَانُوْا یُدْعَوْنَ اِِلَی السُّجُودِ وَھُمْ سٰلِمُوْنَ} [القلم: ۴۲، ۴۳] ’’جس دن پنڈلی سے کپڑا اٹھا دیا جائے گا اور کفار سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کر سکیں گے۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھا رہی ہو گی حالانکہ پہلے (اس وقت) سجدے کے لیے بلائے جاتے تھے جب کہ وہ صحیح و سالم تھے۔‘‘ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا جس طرح کہ اس کی شان کے لائق ہے، تو اس وقت ہر مومن مرد اور عورت اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے البتہ وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھلاوے اور شہرت کے لیے سجدے کیا کرتے تھے، وہ اس وقت سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی ریڑھ کی ہڈی کے منکے تختے کی طرح ایک ہڈی
Flag Counter