Maktaba Wahhabi

237 - 611
ناپاک چیزوں کو اُن پر حرام ٹھہراتے ہیں اور اُن پر سے بوجھ اور طوق جو اُن (کے سر) پر (اور گلے میں) تھے اتارتے ہیں تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انھیں مدد دی اور جو نور اُن کے ساتھ نازل ہوا ہے، اس کی پیروی کی، وہی مراد پانے والے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نور کے ساتھ تشبیہ دی ہے، کیونکہ وہ جہالت کے اندھیروں کو مٹا دیتا ہے۔ اس کی روشنی سے حق ظاہر ہوتا ہے اور وہ باطل کے مقابلے میں ممتاز ہوجاتا ہے، اس کے ذریعے سے ہدایت اور گمراہی اور بھلائی اور بر ائی کے مابین تمییز کی جاتی ہے۔ پس ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ قرآنِ عظیم کے نور سے روشنی حاصل کرے۔ اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانے اور اس کے احکام بجالائے، اس کی منع کردہ باتوں سے اجتناب کرے اور اس کے واقعات اور مثالوں سے عبرت حاصل کرے۔ اس ساری گفتگو کے بعد کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ قرآنِ کریم کے نورِ ہدایت سے محروم رہے اور بصیرت حاصل نہ کرے۔ جس شخص نے اس نور کو قبول کر لیا، اس کا اتباع کیا اور اس نورِ مبین میں جو کچھ ہے اس کے مطابق عمل کیا، وہی کامیاب اور دنیا و آخرت میں اپنے مطلوب کو پانے والا بامراد ہے۔ ایسا خوش قسمت شخص دین و دنیا کی بھلائیاں حاصل کرے گا اور جب احوال کی اصلاح ہوجائے تو کردار سیدھا، قدم ثابت اور دل مطمئن ہوجاتا ہے۔بندے پر سکینت نازل ہوتی ہے، دل راضی ہوجاتا ہے اور وہ امن اور ایمان سے لطف اندوز ہوتا ہے، جیسا کہ سورۃ الرعد (آیت: ۲۸) میں فرمانِ الٰہی ہے: { اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ} ’’آگاہ رہو! اللہ کے ذکر ہی سے دل اطمینان پاتے ہیں۔‘‘ کیا اس کے بعد بھی کوئی اور نعمت اور سامانِ راحت ہے ؟اس برکت کا سبب یہ ہے: { اِتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ رَّبِّھِمْ} [محمد: ۳] ’’انھوں نے اپنے رب کی طرف سے حق کی پیروی کی۔‘‘ بندہ جب حق کی پیر وی کرتا ہے تو وہ دنیا بھر میں سب سے اچھی حالت میں ہوتا ہے اور آخرت میں وہ دائمی نعمتوں سے سرفراز ہوگا۔
Flag Counter