Maktaba Wahhabi

179 - 611
درجے والوں میں سے تھا؟‘‘ اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو اللہ تعالیٰ نے کتنا بلند مقام عطا کیا، یہ مقام و مرتبہ کسی اور مخلوق کو حاصل نہ ہوسکا۔ اب سوال یہ ہے کہ اتنے انعامات عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی آدم سے اس کے عوض میں کیا طلب کیا؟ غور کرنے کی بات ہے کہ ضرور کوئی مقصد پوشیدہ ہے، کوئی خاص بات ہوگی یا کوئی بہت بڑا مطالبہ ہوگا، لیکن ایسا کچھ نہیں، اللہ نے ہمیں اتنا کچھ عطا کیا اور اس کے بدلے صرف ایک ہی بات کہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الذاریات (آیت: ۶۵) میں یوں بیان کیا ہے: { وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ} ’’ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔‘‘ جب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ انسانوں اور جنات کو پیدا کرنے کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبادت کیسے کی جائے؟ نیز کون کون سے کام ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے عبادت قرار دے کر خاص اپنی ذات کے لیے کرنے کا حکم دیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کسی بات کو تشنہ نہیں چھوڑا، ان مقاصد کو پورا کرنے کے لیے انبیا اور رسول بھیجے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری کے لیے بنی نوعِ انسان کی راہنمائی کریں۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے عرش پر مستوی ہوتے ہوئے اپنے بندوں کی راہنمائی کے لیے وحی کے ذریعے احکامات نازل فرما دیے، تاکہ اس کے بندے اس کی مرضی کے مطابق اس کی عبادت و بندگی کریں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر امت میں ایک خوشخبری دینے اور ڈرانے والا بھیجا، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کے آداب سکھائیں اور اس کی فرمانبرداری کرنے کے سبب سے جو انعامات (جنت) دیے جائیں گے ان کی خوشخبری دیں اور اس کی نافرمانی کرنے کے جرم میں جو سزائیں دی جائیں گی، ان سے ڈرائیں۔ انھیں رسولوں میں سے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے باعثِ ہدایت بنا دیا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے واقعات قرآن میں موجود ہیں، جبکہ ہمارے نبی سارے انبیا اور رسولوں کے امام ہیں،
Flag Counter