Maktaba Wahhabi

162 - 611
کے اس فتنے سے محفوظ رکھے۔ آمین اسی طرح ایک اور خاص بات وسیلے کے حوالے سے میں اپنی بہنوں کی خد مت میں عرض کرنا چاہتی ہوں اور وہ یہ کہ بعض لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے جنت سے نکال دیا تھا تو اُس وقت حضرت آدم علیہ السلام نے عرشِ الٰہی پر ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا، تو انھوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے دعا مانگی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف فرما دیا۔ جبکہ یہ روایات موضوع و من گھڑت ہیں۔[1] یہ قرآنِ کریم کے بھی معارض ہیں، اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے بھی خلاف ہیں، تمام انبیا علیہم السلام نے ہمیشہ براہِ راست اللہ سے دعائیں کیں، کسی نبی، ولی اور بزرگ کا واسطہ اور وسیلہ نہیں پکڑا، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیا علیہم السلام کا طریقۂ دعا یہی رہا ہے کہ کسی واسطے اور وسیلے کے بغیر اللہ کی بارگاہ میں دعا کی جائے، لہٰذا عمل کے بغیر کوئی وسیلہ یا سفارش قبول نہیں ہوگی اور نہ کوئی مددگار آگے آئے گا، جیسا کہ قرآنِ کریم کی سورۃ البقرۃ (آیت: ۴۸) میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے: { وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لاَ یُقْبَلُ مِنْھَا شَفَاعَۃٌ وَّ لاَ یُؤْخَذُ مِنْھَا عَدْلٌ وَّ لاَ ھُمْ یُنْصَرُوْنَ} ’’اور اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ کام آئے گا، نہ اس کی سفارش سنی جائے گی، نہ بدلہ (روپیہ وغیرہ بطورِ فدیے کے) منظور ہوگا اور نہ مدد ملے گی۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ وہاں اللہ کے نافرمانوں کو کوئی سہارا نہیں دے سکے گا، لیکن امتِ محمدیہ کے کچھ لوگ اس فریب میں مبتلا ہیں کہ ہماری شفاعت ہوگی۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی اجازت سے یقینا شفاعت فرمائیں گے اور اللہ ان کی شفاعت قبول فرمائے گا، لیکن یہ بھی احادیث میں آتا ہے کہ اِحْدَاث فِی الدِّین کے مرتکب اس سے محروم ہی رہیں گے، نیز بہت سے گناہ گاروں کو جہنم میں سزا دینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر جہنم سے نکالا جائے گا، کیا جہنم کی یہ چند روزہ سزا قابلِ برداشت ہے کہ ہم شفاعت پر تکیہ کرکے معصیت کا ارتکاب کرتے رہیں؟ نہیں، ہرگز
Flag Counter