Maktaba Wahhabi

98 - 611
علم نہیں کہہ سکتے، کیو نکہ علم کسی شے کو یقینی طور پر جاننے کا نام ہے، یہ تو شاید ممکن ہے کہ بچہ ہے یا بچی) لیکن ماں کے پیٹ میں نشو و نما پانے والا یہ بچہ نیک بخت ہے یا بد بخت، ناقص ہوگا یا کامل، خوب صورت ہوگا یا بدشکل، کالا ہو گا یا گورا، ان سب باتوں کا علم اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ 4. انسان کل کیا کرے گا؟ وہ معاملہ دین کا ہو یا دنیا کا، کسی کو آنے والے کل کے بارے میں علم نہیں ہے کہ وہ اس کی زندگی میں آئے گا بھی یا نہیں۔ 5. اسی طرح موت کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ موت کہا ں آئے گی؟ گھر میں یا گھر سے باہر، اپنے وطن میں یا دیارِ غیر میں جوانی میں آئے گی یا بڑھاپے میں؟ اپنی آرزوؤں اور خواہشات کی تکمیل کے بعد آئے گی یا اس سے پہلے؟ یہ کسی کو معلوم نہیں۔ حدیثِ جبرائیل علیہ السلام میں بھی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سوال کیا کہ آپ مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسئول (جس سے دریافت کیا گیا ہے) سائل (دریافت کرنے والے) سے زیادہ نہیں جانتا۔‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ صحیحہ کے ذریعے احوالِ قیامت کے متعلق جو کچھ ثابت ہے، ان پر ایمان لانا ضروری ہے، جس طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں بتایا ہے۔ اگر کوئی اہلِ ایمان ٹھیک اسی طرح ایمان لا نے کے بعد تقویٰ وعمل اور عقیدۂ صحیحہ کا اہتمام کرتے ہیں محض زبان سے اظہارِ ایمان کو کافی نہیں سمجھتے تو ان کے لیے ان کے پروردگار کی طرف سے کامیابی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ فرمایا: { اُولٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِْ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ} [البقرۃ: ۵] ’’یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں۔‘‘ یہ اہلِ ایمان کا انجام بیان فرمایا گیا ہے۔ یعنی ان کی کا میابی سے مراد آخرت میں رضاے الٰہی
Flag Counter