Maktaba Wahhabi

90 - 611
’’کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے سارے لوگوں سے بڑھ کر میرے ساتھ محبت نہ کرے۔‘‘[1] اہل و مال اور دل و جان سے زیادہ محبت کا معیار صحابہ کرام علیہم السلام نے پو را کر کے دکھلا دیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سمیت صحابہ کرام علیہم السلام نے حبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی مثالیں قائم کیں، جنھیں پڑھ کر آدمی حیرت زدہ ہو جاتا ہے۔ کیو نکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ اہلِ ایمان کے لیے ان کی اپنی جانوں سے بھی بڑھ کر عزیز اور محترم ہے۔ امام ابوبکر ابن العربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام و اکرام وفات کے بعد بھی اتنا ہی ہے جتنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلامِ ماثور (احادیث) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اسی طرح رفیع الشان ہے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلتے وقت تھا، لہٰذا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام و احادیث پڑھی جائیں تو وہاں موجود ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنی آواز بلند نہ کرے اور نہ اس سے روگردانی کرے، جس طرح یہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سننے والے کے لیے لازم تھا۔‘‘[2] غرض سلف صالحینِ امت نے اس سلسلے میں بہترین مثالیں قائم فرمائی ہیں۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِ خیر یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث و ارشادات میں سے کسی حدیث کے تذکرے کے وقت ایسے ہوجاتے کہ ان پر ہیبت و جلال طاری ہوجاتا اور وہ ادب کی تصویر بن جایا کرتے تھے۔ ٭ حضرت عَمرو بن میمون رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے صرف ایک ہی مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو اس حال میں دیکھا ہے کہ انھوں نے کہا: (( قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ )) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔‘‘ تب میں نے ان کی طرف غور سے دیکھا کہ یہ کلمات کہنے سے پہلے انھوں نے اپنی ازار ڈھیلی کرلی، ان کی رگیں پھول گئیں اور ان کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبا گئیں۔ ٭ ابو سلمہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
Flag Counter