Maktaba Wahhabi

570 - 611
مندوں کا پتا چلا کر ان کی امداد کرنی چاہیے، جو سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا انسان کی عزت نفس اور خود داری کے خلاف ہے۔ جس کے پاس اتنا سامان ہو جو اس کو کفایت کرتا ہو لیکن اس کے باوجود وہ لوگوں سے ہمیشہ سوال کرنے والا ہے، تو بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اس کے چہرے پر قیامت کے دن گوشت نہیں ہوگا۔‘‘[1] فقیر سے مسکین قدرے بہتر حیثیت رکھنے والا ہوتاہے اور وہ دستِ سوال بھی دراز نہیں کرتا اور نہ اپنی شکل ایسی بناتا ہے کہ لوگ اسے کچھ دیں۔[2] 3. اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کو زکات دی جائے، تاکہ ہتھیار، سواری اور خرچ وغیرہ جیسی ان کی ضروریات میں وہ ان کے کام آسکے، تاکہ اللہ کے دشمنوں سے وہ جہاد کر سکیں۔ 4. اسی طرح مسافر کو بھی زکات کا مال دیا جاسکتا ہے، یعنی وہ مسافر جو لمبا سفر ہونے کی وجہ سے راستے ہی میں اس کا خرچہ ختم ہو جاتا ہے یا پھر کوئی دشمن لٹیرا سفر میں ان کے مال و اسباب ان سے چھین لیتا ہے یا دیگر کسی سبب سے ان کا سامانِ خرچ ختم ہو جاتا ہے تو ایسے لوگوں کو بھی زکات دی جاسکتی ہے، جس سے وہ اپنے گاؤں یا شہر یا اپنے وطن پہنچنے تک ان کی ضروریات پوری ہوں۔ اپنے گھر میں بے شک وہ صاحبِ حیثیت ہی کیوں نہ ہو۔ 5. قرض ادا کرنے کے لیے بھی زکات کی رقم دی جاسکتی ہے، لیکن وہ مقروض ایسے ہوں جو اپنے اہل و عیال کے نان و نفقے کے سلسلے میں زیر بار ہوگئے ہوں اور قرض ادا کرنے کے لیے ان کے پاس نقد رقم ہو نہ کوئی ایسی چیز جسے بیچ کر قرض ادا کر سکیں۔ دوسرے وہ ذمہ دار اصحابِ ضمانت ہیں کہ کسی کی ضمانت دی اور پھر اس کو ادا کرنے کے ذمے دار قرار پاگئے۔ تیسرے وہ لوگ جو کسی فصل کے تباہ ہو جانے یا کاروبار کے خسارے کی وجہ سے مقروض ہوگئے۔ ان سب کی مدد بھی مالِ زکات سے کی جاسکتی ہے۔ 6. عاملین: وہ افرادِ کار ہیں جو زکات جمع کرنے، اسے تقسیم کرنے اور اس کا حساب کتاب رکھنے
Flag Counter