Maktaba Wahhabi

550 - 611
میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ رات رمضان کے آخری دس دنوں میں ہے، جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں صراحت موجود ہے، چنانچہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’میں نے اس رات کی تلاش میں رمضان کے پہلے دس دنوں کا اعتکاف کیا، پھر میں نے درمیان والے دس دنوں کا اعتکاف کیا، پھر مجھے کسی (جبریل علیہ السلام ) نے بتایا کہ یہ رات رمضان کے آخری دس دنوں میں سے ایک ہے پس جس شخص نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے، اُسے چاہیے کہ (آیندہ) آخری دس دنوں کا اعتکاف کیا کرے۔ مجھے یہ رات دکھائی گئی (کہ کونسی ہے) پھر بھلادی گئی۔‘‘[1] اسی حدیث میں ہے کہ لیلۃ القدر کی رات میں نے دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پس تم اِسے آخری عشرے میں تلاش کرو اور آخری عشرے کی بھی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ اس حدیث کے راوی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری ان دو آنکھوں نے دیکھا ہے کہ اکیسویں رات کی صبح کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پر پانی اور مٹی کے نشانات تھے، کیونکہ اُسی رات بارش ہوئی تھے اور مسجدِ نبوی جو کھجور کے پتوں کی چھت والی تھی، اُس کی چھت ٹپک رہی تھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رات آخری دس دنوں میں ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی رات کی تلاش میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے، جو قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے سنت اور ذریعہ سعادت ونجات ہے۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں لیلۃ القدر کی رات بتانے کے لیے باہر تشریف لائے تو آگے دو مسلمان آپس میں جھگڑ رہے تھے، وہاں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمھیں لیلۃ القدر کے بارے میں بتانے کے لیے نکلا تھا، مگر فلاں فلاں آدمی جھگڑرہے تھے، پس اُس رات کی تعیین اٹھا لی گئی اور ہوسکتا ہے کہ اِسی میں تمھاری بہتری ہو۔ (یعنی اس کی تلاش میں زیادہ دن مصروفِ عبادت رہو) پھر فرمایا: ’’تم اُسے(آخری عشرے کی) نویں، ساتویں اور پانچویں راتوں میں تلاش کرو۔‘‘[2]
Flag Counter