Maktaba Wahhabi

495 - 611
یہ عبادت چونکہ نفس کی طہارت اور تزکیے کے لیے بہت اہم ہے، اس لیے اسے تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا، اس کا سب سے بڑا مقصد تقویٰ کا حصول ہے، کیوں کہ تقویٰ انسان کے اخلاق و کردار کے سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے اور روزہ ہی ایک ایسا عمل ہے، جس میں تقویٰ پرہیز گار بدن کے لیے تزکیہ اور شیطان کے راستوں کو تنگ کردینے کا اہتمام بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتابِ مبین کو عمل کرنے کے لیے اچھی طرح سمجھ کر پڑھیے کیونکہ اس کتاب قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ تقویٰ کے اوصاف بیان کیے ہیں۔ نیز نفس کی تربیت کا ایک مکمل ضابطہ بیان کیا گیا ہے کہ نفسِ امارہ کو نفسِ مطمئنہ کے درجے تک کیسے پہنچایا جاتا ہے، اس مقصد کے لیے مسنون زندگی کا ایک مکمل نقشہ نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں موجود ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کا جو نقشہ اور طریق پیش کیا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن عبادات کو فرضیت کے درجے میں پیش کیا، ان کا ایک طریقہ بھی سکھایا ہے اور سب سے پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا۔ شرعی زندگی میں اس طریقِ عبادت سے انحراف یا اس میں تبدیلی کا کوئی تصور یا گنجایش نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر مسلمان کی عبادت کی قبولیت کی بنیاد اس عمل کو مسنون طریقے سے ادا کرنے پر ہے۔ جہاں تک روزے کی مخصوص عبادت کا تعلق ہے، تو اس سلسلے میں نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے عامۃ المسلمین کو تو صرف رمضان المبارک کے مہینے کے روزوں کا پابند بنایا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان فرض روزوں کے علاوہ کثرت سے نفلی روزے بھی رکھتے تھے، جیسے ہر ہفتے میں سوموار اور جمعرات اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے علاوہ ہر قمری مہینے کی ۱۳۔ ۱۴۔ ۱۵۔ کی تاریخوں کو روزے رکھا کرتے تھے۔ رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھتے، رمضان المبارک سے پہلے شعبان کے زیادہ دن روزوں کی کیفیت میں رہتے۔ روزوں کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رغبت اور اہتمام سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ عبادت کس درجہ مرغوب اور محبوب تھی۔ قرآنِ مجید میں روزے کی فرضیت اور اس کے مختصر احکام بیان کیے گئے ہیں، مگر اس عبادت کا مکمل نقشہ احادیث کی کتابوں میں پوری جامعیت کے ساتھ موجود ہے۔ جہاں تک اس عبادت کے فضائل و برکات کا تعلق ہے تو اس پر درجنوں صحیح احادیث پیش کی جاسکتی ہیں مگر ہمارے نزدیک تو
Flag Counter