Maktaba Wahhabi

481 - 611
صدیقۂ کائنات رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب بھی تم میں سے کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے سوال کرے تو اُسے چاہیے کہ بڑی بڑی چیزوں کا سوال کرے کیونکہ وہ اپنے رب کرِیم سے سوال کرتا ہے جو ہر چیز پر قادر ہے۔ اگر آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صبح وشام کے معمولات کا جائزہ لیں تو معلوم ہو تا ہے کہ ہر مرحلے پر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے دعا مانگی۔ ان دعائوں میں یا تو آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے دنیا و آخرت کی بھلائیاں طلب کیں، یا نقصان دہ امور سے اس کی پناہ مانگی، یا اس کی تسبیح و تعریف کی اور اس کا شکر ادا کیا اور پھر اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اپنے رب سے تعلق پیدا کرنے کا حکم دیا اور انھیں کثرت سے دعائیں مانگنے کی تلقین فرمائی۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ جب بھی اپنی کسی ضرورت و حاجت کے لیے دعا کرے تو اپنے خالق و مالک کے سامنے التجا کرے اور مسنون الفاظ سے دعا کرے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہیں، من گھڑت مناجات اور موضوع اور اوراد وظائف سے بچیں۔ ہر انسان کو روز مرہ زندگی میں پیش آنے والی جتنی بھی ضروریات و حاجات ہیں، جب ان کے متعلق زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے نکلی ہوئی بے شمار دعائیں موجود ہیں اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں تو پھر اِدھر اُدھر کی دعائیں پڑھنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ اللہ تعالیٰ ہر دعا قبول کرتا ہے، لیکن جس میں کسی کی حق تلفی یا قطع تعلقی ہوتی ہو ایسی دعائیں بارگاہِ الٰہی میں قبولیت سے ہمکنار نہیں ہوتیں۔حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’بندے کی دعا اگر گناہ یا قطع رحمی پر مشتمل نہ ہو تو وہ دعا قبول کی جاتی ہے۔‘‘[1] کیونکہ مومن کی زبان سے نکلی ہوئی دعا کبھی بے کار نہیں جاتی۔ ’’یا تو اُس کی دعا کو اسی وقت قبول کرلیا جاتا ہے یا پھر اُس کی آخرت کے لیے اسے ذخیرہ کرلیا جاتا ہے یا پھر اُس پر آنے والی مصیبت کو اُس سے دور کردیا جاتا ہے۔‘‘ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ان تین باتوں میں سے ایک ضرور پوری کردی جاتی ہے۔[2] اگر آپ مسلسل اللہ سے دعا و فریاد کر رہے ہیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا اور دعا جلدی قبول نہیں ہو رہی تو بے صبری اور بے قراری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دعا کو ترک نہ کریں بلکہ دعا کو
Flag Counter