Maktaba Wahhabi

461 - 611
اس قسم کے نمازی کے متعلق سورۃ المنافقون (آیت: ۹) میں ارشادِ الٰہی ہے: { ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلاَدُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ} ’’مومنو! تمھارا مال اور اولاد تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دے اور جو ایسا کرے گا تو وہ لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔‘‘ علماے تفسیر کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ اس آیت میں ذکرِ الٰہی سے مراد پانچ نمازیں ہیں۔ جوآدمی کاروباری مصروفیات یا بچوں کے کھیل کود میں نمازوں کو بے وقت کر کے پڑھتا ہے، قیامت کے دن وہ خسارہ پانے والا ہوگا۔[1] ایسے نمازیوں کے بارے میں قرآنِ کریم کے تیسویں پارے کی سورۃ الماعون کی (آیت: ۴، ۵) میں اللہ تعالیٰ نے بڑی سخت وعید سُنائی ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: { فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ . الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلاَتِھِمْ سَاھُوْنَ} ’’تو ایسے نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے۔ جو نماز کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔‘‘ اس آیت میں جس ویل وہلاکت کا ذکر آیا ہے اس ویل کی تشریح کرتے ہوئے امام طبری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جہنم کی ایک وادی کا نام ویل ہے، جو جہنمیوں کے پیپ سے بہتی ہے، یعنی اس قسم کے نمازیوں کے لیے ویل و جہنم ہے۔[2] اللہ تعالیٰ کے غضب اور دردناک سزا سے بچنے کے لیے ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنی چاہیے، اسی میں ہماری دنیا اور آخرت کی خیر ہے۔ جس انسان کے پاس معمولی سوجھ بوجھ اور بصیرت ہو اسے معلوم ہے کہ نماز میں کس قدر فائدے ہیں اور کس قدر بھلائیاں اس میں پوشیدہ ہیں۔ نماز ایک ایسا عمل ہے جو کسی بھی حال میں معاف نہیں ہے، چاہے حالتِ امن ہویا حالتِ خوف، گرمی ہو یا سردی، تندرستی ہویا بیماری حتیٰ کہ جہاد و قتال کے موقع پر عین میدانِ جنگ میں بھی یہ فرض معاف نہیں ہوتا۔ البتہ موقع کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے آسانی ضرور فرما دی ہے، مثلاً:
Flag Counter