Maktaba Wahhabi

386 - 611
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ غسل بتاتے ہوئے فرمایا: ’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسلِ جنابت کے لیے پانی بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے دو یا تین مرتبہ اپنے ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنا دھلا ہوا ہاتھ پانی کے اس برتن میں ڈالا اور دائیں ہاتھ سے پانی لے کر اپنے مقام استنجا پر ڈالا اور اپنے بائیں ہاتھ سے اسے دھویا۔ پھر اپنا بایاں ہاتھ زمین پر مارا اور اسے مٹی کے ساتھ خوب رگڑ رگڑ کر ملا۔ پھر نماز کے لیے وضو کرنے جیسا وضو کیا۔ پھر تین دفعہ چلو بھر کر سر پر پانی ڈالا۔ پھر اپنے سارے جسم کو دھویا، پھر اس جگہ سے ہٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دو نوں پاؤں دھوئے۔‘‘[1] اس حدیث میں آگے یہ الفاظ بھی ہیں: ’’پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تولیہ دیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس کردیا۔‘‘ صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی کی ایک حدیث میں ہے : ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی (اپنے دو نوں ہاتھوں سے) جھاڑا۔‘‘ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب پانی کا جھاڑنا ثابت ہے تو پھر تولیے سے بدن کو صاف کر لینا بھی جائز ہے۔[2] ان مذکورہ دو احادیث (جو حضرت عائشہ وام سلمہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہیں) کے مجموعی مفاد سے غسلِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مسنون طریقہ سامنے آتا ہے، ظاہر ہے کہ غسل کا سب سے پاکیزہ طریقہ اور باسلیقہ انداز یہی ہو سکتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کی جگہ سے ہٹ کر آخر میں پاؤں دھوئے، اس کی وجہ یہ ہو گی کہ غسل کی وہ جگہ پختہ نہ ہو گی اور وہاں پا نی رکتا اور جمع ہوتا ہوگا، اس طرح کیے گئے غسل کے بعد دوبارہ وضو کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہتی بلکہ اسی غسل والے وضو سے نماز وغیرہ پڑھی جاسکتی ہے، بشر طیکہ دورانِ غسل وضو ٹوٹنے کی صورت پیش نہ آئے، کیونکہ سننِ اربعہ اور مستدرک حاکم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مردی ہے کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غسل کے بعد وضو نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘
Flag Counter