Maktaba Wahhabi

367 - 611
٭ غروب آفتاب سے پہلے تجہیز و تکفین کے لیے وقت کا ناکافی ہونا وغیرہ۔ لہٰذا منگل کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑوں سمیت غسل دیا گیا۔ حضرت فضل بن عباس اور اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہم نے پردہ کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے غسل دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی اس موقع پر موجود تھے، بلکہ بعض روایات میں ہے کہ انھوں نے بھی پردہ کیا۔ غسل دینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید سو تی کپڑ ے کی چادرو ں میں کفن دیا گیا۔ بخاری ومسلم شریف میں ہے کہ ان میں قمیص اور عمامہ نہ تھا۔[1] غسل اور کفن سے فارغ ہوئے تو سوال پیدا ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کہاں کیا جائے؟ تو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: (( لَنْ یُّقْبَرَ نَبِيٌّ اِلاَّحَیْثُ یَمُوْتُ )) [2] ’’کوئی نبی جہاں بھی فوت ہوا، اسے وہیں دفن کیا جاتا ہے۔‘‘ لہٰذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بسترِ مرگ کے مقام پر ہی قبر کھودنا تجویز ہوا۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے لحد والی قبر کھو دی، جنازہ تیار ہوگیا، جو حجرے کے اندر ہی رکھا تھا۔ لہٰذا پہلے گھر والوں اور اہلِ خاندان اور پھر مہاجرین و انصار مردوں، عورتوں اور بچوں نے نماز ِجنازہ ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ میں امام کوئی نہ تھا۔ حجرے کی تنگ دامانی کی وجہ سے دس دس شخص اندر جاتے اور نما ز پڑھ کر نکل آتے۔ یہ سلسلہ لگاتار شب و روز جاری رہا۔ اس لیے تدفینِ مبارک منگل اور بدھ کی درمیانی رات کو یعنی رحلت سے تقریباً بتیس گھنٹے بعد عمل میں آئی۔[3] سنن ابو داود میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ اطہر کو حضرت علی، فضل بن عباس، اسامہ بن زید اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم نے قبرِ شریف میں اتارا تھا۔[4] اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکَ عَلَیٰ عَبْدِکَ وَرَسُوُلِکَ رَحْمَۃٍ لِّلْعَالَمِیْنَ وَعَلَیٰ آلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعْیِنَ۔
Flag Counter