Maktaba Wahhabi

336 - 611
’’جس چیز کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو، بلاشبہہ ہم اس کا انکار کرنے والے ہیں۔ (ہم اس پر ایمان لائیں گے نہ اس کی اتباع کریں گے)۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان خوش حال اور تکذیب کرنے والوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ انھوں نے اموال و اولاد کی کثرت پر فخر کیا اور یہ عقیدہ رکھا کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان سے محبت اور ان کے ساتھ خصوصی تعلق ہے اور یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ دنیا میں تو انھیں مال و اولاد سے کثرت سے نوازے، پھر آخرت میں انھیں عذاب دے، فرمایا کہ یہ ان کا خام خیال ہے۔ سورۃ المومنون (آیت: ۵۵، ۵۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: { اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّھُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ . نُسَارِعُ لَھُمْ فِی الْخَیْرَاتِ بَل لَّا یَشْعُرُوْنَ} ’’یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم جو اُن کی مال اور اولاد سے مدد کرتے ہیں، تو اُن کو بھلائی پہنچانے میں جلد ی کرتے ہیں، ہر گز نہیں ان لوگوں کو (ہمارا اصل مقصد) معلوم نہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمایا ہے کہ اے میرے نبی! کہہ دیں کہ میرا رب جس کے لیے چاہتا ہے، روزی فراخ کر دیتا ہے اور (جس کے لیے چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے۔ پھر فرمایا: ’’تمھارا مال اور اولاد ایسی چیزیں نہیں کہ تمھیں ہمارا مقرب بنا دیں اور اگر ہم نے تمھیں مال اور اولاد دی ہے تو یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ہمیں تم سے محبت اور خصوصی تعلق ہے۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ تمھاری صورتوں، تمھارے مالوں اور تمھاری اولادوں کی طرف نہیں دیکھتا ہے، بلکہ وہ تمھارے دلوں اور عملوں کی طرف دیکھتا ہے۔‘‘[1] معراج کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل مکے میں مقیم رہے۔ ہر طرف سے مصائب و آلام کا سامنا تھا۔ سب کچھ سہتے تھے، مگر دعوتِ حق سے منہ نہ موڑتے تھے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے مدینے کے انصار کو مشرف بہ اسلام ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور اس کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہجرتِ مدینہ کی اجازت
Flag Counter