Maktaba Wahhabi

319 - 611
گا۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے: ’’اِنَّ نَفْسِيْ لَا تُطَاوِعُنِیْ عَلَیٰ فِرَاقِ دِیْنِ عَبْدِ الْمُطَّلَبِ‘‘ ’’میرا دل یہ نہیں چاہتا کہ میں اپنے باپ عبدالمطلب کا دین چھوڑ دوں۔‘‘ پھر واقعی ابو طالب نے عمر بھر دینِ اسلام کو قبول کیا نہ ایمان لائے، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کا حق ادا کر دیا۔[1] بخاری اور مسلم شریف میں ہے کہ جب آیت: {وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَ قَرَبِیْنَ} نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ صفا پر چڑھ گئے اور مختلف خاندانوں کے نام لے لے کر آوازیں دیں، جب وہ جمع ہو گئے، تو فرمایا: ’’اگر میں تمھیں یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے ایک لشکر ہے، جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم مان جاؤ گے؟ ان سب نے کہا: ’’مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ کِذْباً‘‘ ’’ہم نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں سنا۔‘‘ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( فَاِنِّیْ نَذِیْرٌ لَّکُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ )) ’’میں تمھیں عذابِ شدید سے ڈرانے والا ہوں۔‘‘ یہ سنتے ہی ابو لہب اٹھا اور بھڑک کر کہا: ’’تَبّاً لَکَ سَائِرَ الْیَوْمِ أَلِھَذَا جَمَعْتَنَا‘‘ ’’تو ہلاک ہو جائے، کیا تو نے ہم سب کو صرف اسی لیے جمع کیا تھا؟‘‘ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے تیسویں پارے کی سورت لہب نازل فرمائی ہوئی۔[2] اس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ { تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ . مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ . سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَھَبٍ . وَّامْرَاَتُہٗ حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ.
Flag Counter