Maktaba Wahhabi

304 - 611
اور پھر جو فیصلے تم ان میں کر دو اُس سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی نہ پائیں بلکہ اُس کو خوشی اور فرمانبرداری سے مان نہ لیں تب تک یہ مومن نہیں ہوسکتے۔‘‘ اس آیتِ کریمہ کا مطلب یہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات یا فیصلے سے اختلاف تو کجا، دل میں انقباض بھی محسوس کرنا ایمان کے منافی ہے۔ یہ آیت منکرینِ حدیث کے لیے تو ہے ہی دیگر افراد کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے جو قولِ امام کے مقابلے میں حدیث صحیح سے انقباض ہی محسوس نہیں کرتے بلکہ یا تو کھلے لفظوں میں اسے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں یا اس کی دور از کار تاویل کرکے یا ثقہ روایوں کو ضعیف باور کرا کے مسترد کرنے کی مذموم سعی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے ایسے لوگوں کو، اگر ان میں سے کسی کو کہیں کہ بھائی! آپ قرآن اور حدیث کی مخالفت کر رہے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا نے بڑے بزرگوں کو ایسا کرتے ہوئے پایا ہے، ہم بھی وہی کریں گے، یعنی وہی مکے کے مشرکین والا جواب۔ میری بہن! اگر آپ نے ایسا ہی کرنا ہے تو پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجنا اور ان پر قرآن کا نازل کرنا بے مقصد ہوا، ان کے حساب سے اگر ہم نے اپنی مرضی سے دین کو اپنا یا تو پھر جان رکھو کہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ نے کہا ہے: { وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا. یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلاَنًا خَلِیْلًا} [الفرقان: ۲۷، ۲۸] ’’اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو کاٹ کاٹ کر کھائے گا اور کہے گا ہائے! کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رشتہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے افسوس! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔‘‘ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ کے نافرمانوں کے ساتھ دوستی اور وابستگی نہیں رکھنی چاہیے، ورنہ پچھتانا پڑے گا، لیکن اس وقت کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ وہاں پچھتانے سے بہتر ہے کہ دین کے ہر معاملے میں تحقیق سے کام لیں، کیونکہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ آپ جنت میں جائیں۔ اس لیے سوچیں اور سورۃ الاحزاب (آیت: ۶۶ تا ۶۸) پر غور کریں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰہَ وَ اَطَعْنَا
Flag Counter