Maktaba Wahhabi

261 - 611
معلوم ہو اکہ امام صاحب اس روز نماز میں سورۃ الرحمن کی تلاوت کر رہے تھے۔ مجھے تلاوت سن کر بڑا سکون اور اطمینان محسوس ہوا، بغیر کسی علم کے کہ میں کیا سن رہی ہوں؟ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ مجھے حق مل گیا ہے۔ میں نے اپنی اس کیفیت کا اظہار اپنی مسلمان سہیلی سے کیا تو اس نے مجھے مطالعے کے لیے قرآن مجید کا انگر یزی ترجمہ، کچھ کتابیں اور چند کیسٹیں دیں۔ کچھ دنوں کے بعد میں اپنے گھر والوں کی مخالفت کے باوجود دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی۔[1] امرِ واقعہ یہ ہے کہ جو بھی شخص ہدایت کی نیت سے قرآنِ مجید کا مطالعہ کرتا ہے، اسے ہدایت ضرور نصیب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: { وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا} [العنکبوت: ۶۹] ’’وہ لوگ جو ہماری طرف آنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، ہم انھیں اپنے راستے ضرور دکھاتے ہیں۔‘‘ ’’قرآنِ کریم کے فضائل و برکات‘‘ کا درس لکھنے کے دوران میں مجھے ان خوش نصیب نو مسلم مردوں اور خواتین کے حالات کا مطالعہ کر نے کا موقع ملا، تو اس دوران میں دو باتیں میں نے واضح طور پر محسوس کیں: اولاً: ہر شخص کی ہدایت کاسبب کسی نہ کسی طرح قرآن مجید ہی بنا۔ ثانیاً: قرآنِ مجید کا مطالعہ کرنے کے بعد جو لوگ شعوری طور پر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، ان کی زندگیوں میں ایسا زبردست انقلاب برپا ہوا کہ انھوں نے اپنی بقیہ ساری زندگی دینِ اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر دی یا کم از کم ان کے اندر دینِ اسلام کی کوئی نہ کوئی گراں قدر خدمت سر انجام دینے کی شدید تڑپ پیدا ہوگئی۔ امریکہ کے عیسائی گھرانے میں پیدا ہونے والی خاتون ’’بیکی ہاپکنز‘‘ اسلام لانے کے بعد جس جذبے سے سرشار ہوگئیں، اس کا اظہار انھوں نے درج ذیل الفاظ میں کیا: ’’اگر میں دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ پر چڑھ سکتی اور میری آواز ہر اس آدمی تک پہنچ سکتی جو اسلام سے بے خبر ہے تو میں چلاّ چلاّ کر انھیں بتاتی کہ مجھے میرے سوالات کے
Flag Counter