Maktaba Wahhabi

258 - 611
مطالعہ قرآن تک لے آیا۔ ایک روز میں قرآن مجید کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ نظر یں سورت نور کی ایک آیت پر جم گئیں جس میں گمراہ شخص کی مثال سمندری نظارے کے حوالے سے بیان کی گئی تھی: { اَوْ کَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰہُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہِ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہِ سَحَابٌ ظُلُمٰتٌم بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ اِِذَآ اَخْرَجَ یَدَہٗ لَمْ یَکَدْ یَرٰھَا وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍ} [النور: ۴۰] ’’یا (ان کے اعمال) گہرے سمندر کے اندھیروں کی طرح ہیں، جس کو ایک موج نے ڈھانک رکھا ہے، اس کے اوپر ایک موج ہے، اس کے اوپر بادل ہے، (الغرض) کئی اندھیرے ہیں ایک کے اوپر ایک، اگر کوئی اپنا ہاتھ نکالے (تو اس قدر اندھیرا ہے کہ) اس کو دیکھ نہ سکے اور جس کو اللہ (اپنی ہدایت کی) روشنی نہ دے اس کو روشنی کہاں ملے گی۔‘‘ جب میں نے یہ آیت پڑھی تو میرا دل تمثیل کی عمدگی اور اندازِ بیان سے بے حدمتاثر ہوا اور میں نے خیال کیا کہ اس کتاب کے مصنف (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ضرور ایسے شخص ہوں گے جن کے دن رات میری طرح سمندروں میں گزرے ہوں گے، لیکن اس کے باجود مجھے حیرت اس بیان کے مختصر مگر جامع اور بلیغ الفاظ اور اسلوب پر تھی، گویا بات کہنے والا خود رات کی تاریکی، بادلوں کے گہرے سائے اور موجوں کے طوفان میں ایک جہاز پر کھڑا ہے اور ڈوبتے شخص کی حالت دیکھ رہا ہے۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم امی (اَن پڑھ )شخص تھے اور انھوں نے زندگی بھر سمندری سفر نہیں کیا۔ اس انکشاف کے بعد میرا دل روشن ہوگیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز نہیں بلکہ اُس ہستی کی آواز ہے، جس نے سمندروں سمیت کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ میں نے قرآنِ مجید کا دوبارہ مطالعہ شروع کیا۔ اب میرے سامنے مسلمان ہوئے بغیر کوئی چارہ نہ تھا، چنانچہ شرح صدر کے ساتھ کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔‘‘[1]
Flag Counter