Maktaba Wahhabi

255 - 611
4. مسلمان کسی ٹیکنالوجی اور ایجاد کے بغیر پوری دنیا پر چھا گئے۔ عہدِ نبوت کو تو چھوڑیے، عہدِ صحابہ اور عہدِ تابعین میں جب مسلمان عرب ملکوں سے نکل کر دور اجنبی سر زمینِ اندلس پر پہنچے تو مور خین لکھتے ہیں: ’’اندلس پر مسلمانوں کی اتنی ہیبت چھائی ہوئی تھی کہ اسلامی لشکر کو کوئی روکنے والا نہ تھا۔ طارق بن زیاد رحمہ اللہ جدھر رخ کرتے فتح و کامرانی ان کے ہمرکاب چلتی۔ (اندلسی خود پیش قدمی کر کے صلح کرتے) طارق بن زیاد رحمہ اللہ آگے آگے علاقے فتح کرتے جاتے اور موسیٰ بن نصیر رحمہ اللہ ان کے پیچھے پیچھے صلح ناموں اور معاہدوں کی تصدیق کرتے جاتے۔‘‘ اندازہ فرمائیں ۹۲ھ میں طارق بن زیاد رحمہ اللہ صرف سات ہزار سپاہیوں کے ساتھ جبر الٹر (جبلِ طارق) پر اترے۔ وہاں کے حاکم تھیوڈو میرسے مقابلہ ہوا۔ تھیوڈو میر شکست کھا کر فرار ہوا اور اپنے بادشاہ راڈرک کو لکھا: ’’ہمارے ملک پر ایسے آدمیوں نے حملہ کیا ہے کہ ان کا وطن معلوم ہے نہ ان کی اصلیت کہ کہاں سے آئے ہیں، زمین سے نکلے ہیں یا آسمان سے اترے ہیں۔‘‘ 5. دنیا میں اس عزت، عروج اور غلبے کا وعدہ قرآن مجید کو مضبوطی سے تھامنے اور اس پر عمل کر نے سے مشروط ہے۔ آج اگر ہم دنیا میں مغلوب اور بے توقیر ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے قرآنِ مجید کو ترک کر دیا ہے اور معاشرہ ایمان، نیکی، تقویٰ، امانت، صداقت اور شجاعت کے بجائے شرک، بدعات، ظلم، بے رحمی، قتل و غارت، لوٹ کھسوٹ، زنا، جوا، بے حیائی، بدامنی اور بدحالی میں مبتلا ہے جس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم نے قرآنِ کریم کو ترک کر دیا ہے۔ اگر ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں اعلیٰ و ارفع اقدار کا چلن عام کرنا چاہتے ہیں اور اپنی ذلت اور پستی کو عزت اور وقار میں بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآنِ مجید کی طرف پلٹ آنا چاہیے۔ بقول حکیم الامت علامہ اقبال ؎ وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر سورت طٰہٰ (آیت: ۱۲۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter