Maktaba Wahhabi

131 - 611
لیے جو شبہہ پیش کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اسے بیان کیا ہے کہ ان کے شرک اور ان کے چیزوں کو حرام کرنے کی اللہ تعالیٰ کو خبر ہے اور وہ اس بات پر قادر ہے کہ ہمارے دلوں میں ایمان ڈال دے، ہمیں کفر سے روک دے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے اعمال و تصرفات اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادے سے ہیں اور وہ ہمارے ان اعمال کی وجہ سے ہم سے راضی ہے۔‘‘ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس پر لکھا ہے کہ یہ کچی اور باطل دلیل ہے، اگر ان کی یہ بات درست ہوتی تو انھیں اللہ تعالیٰ کیوں عذاب چکھاتے اور کیوں انھیں تباہ و برباد کرتے اور ان سے شدید انتقام لیتے؟ {قُلْ ھَلْ عِنْدَکُمْ مِّنْ عِلْمٍ} [الأنعام: ۱۴۸] ’’(اے پیغمبر!) کہہ دیجیے کیا تمھارے پاس اس بارے میں کوئی علم ہے (کہ اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہیں)؟‘‘ { فَتُخْرِجُوْہُ لَنَا} ’’پس تم اس کو ہمارے سامنے پیش کرو۔‘‘ { اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ} ’’تم تو صرف گمان کی پیروی کرتے ہو۔‘‘ یعنی یہ تو محض ان کا وہم اور خیال ہے جس کی بنا پر وہ یہ بات کہہ رہے ہیں۔ { وَ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ} ’’تم اپنے دعوے میں اللہ پر جھوٹ و افترا باندھ رہے ہو۔‘‘[1] ان کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال کو ناپسند کرتے ہوتے تو ہمیں ان کی سزا دیتے اور ہمیں ان اعمال کی طاقت و قدرت ہی نہ دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس شبہے کے تردید کرتے ہوئے فرمایاہے: { فَھَلْ عَلَی الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ} [النحل: ۳۵] ’’رسولوں کی ذمے داری تو صرف واضح طور پر (پیغام) پہنچانا ہے۔‘‘ جیسا کہ سورۃ النحل (آیت: ۳۵) میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter