کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مشترک ہیں ۔ بخلاف صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے؛ آپ کے فضائل بہت زیادہ ہیں ۔ اور ان میں سے اکثر صرف آپ کے ساتھ ہی خاص ہیں ‘ ان میں کو ئی دوسرا آپ کا شریک نہیں ہے۔ یہ مسئلہ کافی تفصیل طلب ہے؛ جسے دوسرے مواقع پر تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔
امامت علی رضی اللہ عنہ کی نویں دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کی نویں دلیل آیت مباہلہ ہے؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآئَ نَا وَ اَبْنَآئَکُمْ وَنِسَآئَنَا وَ نِسَآئَ کُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ ﴾ [آل عمران۶۱]
’’پس جو شخص آپ کے پاس اس علم کے آجانے کے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ کہہ دیں کہ آؤ ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور اپنی اپنی عورتوں کو اور خاص اپنی اپنی جانوں کو بلا لیں ، پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں ۔‘‘
جمہور کا قول ہے کہ اس آیت میں ﴿اَبْنَائَ نَا﴾ کا اشارہ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی طرف ہے۔ ﴿نِسَائَ نَا﴾ سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا مراد ہیں اور﴿اَنْفُسَنَا﴾ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔
یہ آیت امامت علی رضی اللہ عنہ کی زبردست دلیل ہے۔ اس لیے کہ آیت مذکورہ بالا میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ’’نفس رسول‘‘ قرار دیا ہے۔یہ ایک بدیہی بات ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک توہو نہیں سکتے۔ لہٰذا دونوں کی مساوات کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے قائم مقام ہیں ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر دوسرا کوئی شخص فضیلت میں ان کا ہم سر ہوتا تو اﷲ اس کو بھی ساتھ لے جانے کا حکم صادر کرتے، کیونکہ قبولیت دعا کے لیے ان کی ضرورت تھی جب اہل بیت سب سے افضل ہوئے تو پھر امام بھی وہی ہوں گے۔یہ آیت اس قدر واضح ہے کہ اس کی دلالت صرف اس شخص پر پوشیدہ رہ سکتی ہے جس پر شیطان نے قبضہ جما رکھا ہو؛ اور اس کے دل کو مکمل طور پر اپنے قبضہ میں کرلیا ہو۔ اور دنیا کو اس کے لیے محبوب بنادیا گیا ہو؛ وہ اسے اہل حق سے ان کا حق روکے بغیر حاصل نہ کرسکتا ہو ۔‘‘ ( شیعہ مصنف کا بیان ختم ہوا)۔
جواب:جہاں تک مباہلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا ور ان کے دونوں بیٹوں کے لے جانے کا تعلق ہے ؛ یہ صحیح ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:
﴿ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآئَ نَا وَ اَبْنَآئَکُمْ وَنِسَآئَنَا وَ نِسَآئَ کُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ﴾ [آل عمران۶۱]
’’آپ فرما دیں : آؤ ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کو اور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو
|