Maktaba Wahhabi

98 - 764
یہ قول ابن عباس اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب کیا گیا ہے ۔ ان کا فرمان ہے کہ: اس آیت کے نزول کا سبب حضرت صہیب رضی اللہ عنہ تھے ۔‘‘ آٹھویں بات:....اس آیت کے الفاظ مطلق ہیں ۔ اس میں کسی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ہر وہ انسان جو اپنے آپ کو اللہ کی رضامندی کے لیے بیچ ڈالے وہ اس آیت کے عموم میں داخل ہے۔ اور سب سے پہلے جو اس میں داخل ہونے کے بڑے حق دار ہیں وہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ انہوں نے اپنی جانوں کو اللہ کی راہ میں پیش کردیاتھا؛اور اس وقت میں ہجرت کی جب دشمن ہر طرف سے آپ کی تلاش میں تھا۔ نویں بات:....رافضی مصنف کا یہ قول کہ : ’’ یہ فضیلت کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہوسکی ۔یہ آپ کی افضلیت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ آپ ہی امام ہوں گے۔‘‘ جواب:....اس میں شبہ نہیں کہ غار میں جو فضیلت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوئی اس میں وہ دیگر صحابہ سے منفرد ہیں ۔ کتاب و سنت اور اجماع اس پر دلالت کرتے ہیں ۔جو فضیلت آپ کے لیے ثابت ہے وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما اوردوسرے صحابہ کرام کے لیے بھی ثابت نہیں ۔پس اس بنا پر آپ ہی امام ہوئے۔ اسی طرح واقعہ ہجرت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا شرف بھی صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آیا۔ لہٰذا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی خلیفہ برحق تھے۔ یہ وہ سچی دلیل ہے جس میں کوئی شبہ نہیں ۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ (التوبۃ:۴۰) ’’ اگر تم اس کی مدد نہیں کرتے تو اﷲ نے اس کی مدد کی تھی جب کفار نے ان کو نکال دیا تھا وہ دو اشخاص کا دوسرا تھا۔ جب وہ دونوں غار میں تھے اور اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اﷲ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ اس طرح کی فضیلت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے کبھی بھی ہرگزحاصل نہیں ہوسکی ۔ بخلاف اپنی جان نثار کرنے کے۔ اس لیے کہ کئی ایک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جانثاری کا حق ادا کیا تھا۔ ہر مسلمان پر ایسا کرنا واجب ہے ۔ یہ صرف اکابر صحابہ کرام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ فضیلت خصوصیات کی بنا پر ثابت ہوتی ہے ؛ مشترکہ امور کی بنا پر نہیں ۔ یہ بات واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی نے کوئی تکلیف نہیں دی۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں دیگر صحابہ کو جسمانی تکلیفیں پہنچی تھیں ۔ کبھی ان کو مارا گیا ؛ کبھی زخمی ہوئے ؛ اور کئی حضرات قتل کردیئے گئے۔ پس جو اپنی جان پیش کرے اور اسے اذیت بھی دی جائے وہ اس آدمی سے بڑھ کر ہے جو اپنی جان تو پیش کرے ؛ مگر اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ علماء کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں : ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو فضائل صحیح اسناد کے ساتھ ثابت ہیں ؛ وہ دوسرے صحابہ
Flag Counter