Maktaba Wahhabi

510 - 764
فصل:....[سانپ کا واقعہ او رحضرت علی رضی اللہ عنہ ] [اشکال]:گیارہواں واقعہ:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ علماء کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوفہ کے منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک سانپ نکلا اور منبر پر چڑھ آیا۔ لوگوں نے ڈر کر اسے مارنا چاہا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے روکا، اس کے ساتھ کچھ بات چیت کی تو وہ منبر پر سے اتر گیا۔ جب لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تو فرمایا وہ جنوں کا حاکم تھا اورایک پیچیدہ مسئلہ دریافت کرنے آیا تھا۔ میں نے وہ مسئلہ بتادیا جس دروازے سے وہ سانپ داخل ہوا تھا اہل کوفہ اسے باب ثعبان(سانپ والا دروازہ) کہا کرتے تھے۔ بنو امیہ نے یہ نام مٹانے کے لیے اس دروازہ پر عرصہ تک بہت سے مقتولوں کو لٹکائے رکھا، اب لوگ اسے ’’باب القتلیٰ‘‘ (مقتولوں کا دروازہ) کہہ کر پکارنے لگے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب]:ہم کہتے ہیں :’’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جنات تو ان دوسرے علماء کے پاس بھی مسائل دریافت کرنے کے لیے آتے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہزار درجہ کم مرتبہ کے ہیں ؛قدیم و جدید دورمیں یہ بات ثابت ہے [اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے، پھر اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کیا خصوصیت ہے] ؟ اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ، اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام اس سے بہت بلند تھا،اور یہ آپ کے ادنیٰفضائل میں سے ایک ہوگا۔ اور اگر یہ واقعہ ظہور پذیر نہیں ہوا تو اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عظمت و جلالت میں کوئی قدح وارد نہیں ہوتی۔ایسی کہانیوں نے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل وہی لوگ ثابت کرنا چاہتے ہیں جو آپ سے[ اورعلم سے] بہت دور ہیں ۔رہ گئے وہ لوگ جنہیں اہل علم ودین کی صحبت نصیب ہوئی ہے وہ جانتے ہیں کہ دیگر اہل علم کے اس سے بھی بڑے بڑے واقعات ہیں ۔ یا انہوں نے اس سے بھی بڑی بڑی کرامات ملاحظہ کی ہوتی ہیں ۔ایسی روایت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔ ٭ ہم جانتے ہیں کہ وہ صحابہ جوحضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہت کم درجہ کے ہیں ‘ لیکن ہم سے وہ درجہ ہا بہتر اوراعلی مقام رکھتے ہیں ۔ جب ایسے واقعات سے ہم جیسے کسی ایک انسان پر بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت نہیں کی جاسکتی تو پھر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر آپ کی فضیلت کیسے ثابت ہوسکتی ہے۔ مگر اس کا کیا علاج کہ شیعہ کی جہالت ‘ظلم اور اولیاء اللہ متقین سے دوری کی وجہ سے ان کے پاس کوئی قابل اعتماد کرامت موجود نہیں ہے۔بلکہ ان کے علمی افلاس کی حالت یہ ہے کہ جب کسی خارق عادت واقعہ کا سنتے ہیں تو اس کی اس طرح تعظیم کرتے ہیں جیسے کسی قلاش انسان چند ٹکے مل جائیں تو ان کی تعظیم کرتا ہے۔اور بھوکے کو روٹی کے ٹکڑے مل جائیں تووہ انہیں بہت بڑا جانتا ہے۔ رافضی اپنی جہالت اور اولیاء اللہ متقین کی راہ اورتقوی الٰہی سے دوری کی وجہ سے کرامات اولیاء میں اپناکوئی حصہ
Flag Counter