﴿یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْ لُؤُ وَالْمَرْجَانُ﴾ [الرحمنِ: 22]
زجاج نے کہا ہے : بیشک یہ نمکین سمندر سے نکلتا ہے۔ لیکن یہاں پر دونوں [نمکین اور میٹھے] سمندروں کو یکجا کرکے یہ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ جب ان دو میں سے کسی ایک سمندرسے یہ چیزیں نکلیں گویا کہ دونوں سمندروں سے نکلیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا﴾
فارسی نے کہا ہے : اس سے مراد ان دو میں سے ایک مراد ہے ۔ تویہاں پر مضاف کو حذف کردیا گیا ہے۔
ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہاں یہ فرمایا ہے : (منہما) تثنیہ [دو] کا صیغہ لائے ہیں ؛ اس لیے کہ موتی سمندری صدف میں آسمانی بارش کا قطرہ گرنے سے پیدا ہوتی ہے۔
جہاں تک لؤلؤ[موتی] اور مرجان کا تعلق ہے تو ان کی تفسیر میں دو قول ہیں :
پہلا قول:....جو مرجان موتی سے چھوٹا ہو تاہے جب وہ بڑا ہوجائے تو اسے موتی کہا جاتا ہے۔ یہ اکثر اہل علم کا قول ہے ان میں حضرت ابن عباس؛ قتادہ؛ فرآء اور ضحاک رحمہم اللہ شامل ہیں ۔ زجاج رحمہ اللہ کہتے ہیں : لؤلؤ سمندر سے نکلنے والے دانے کا ایک جامع نام ہے ؛ جب وہ چھوٹا ہوتا ہے تو اسے مرجان کہا جاتا ہے۔
دوسرا قول:....لؤلؤ یعنی موتی چھوٹے دانے کوکہتے ہیں ؛ جب وہ بڑا ہوجائے تو اسے مرجان کہا جاتا ہے۔ یہ قول مجاہد؛ سدی اور مقاتل رحمہم اللہ کا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں : جب آسمانوں سے بارش برستی ہے تو صدف اپنا منہ کھول لیں ہیں ۔ پس بارش کا جو قطرہ ان کے منہ میں گر جائے وہ موتی بن جاتا ہے۔ جب کہ ابن جریر کہتے ہیں : جیسے ہی قطرہ اس کے منہ میں گرتا ہے تو وہ موتی کی شکل میں بدل جاتا ہے۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مرجان سرخ گھونگھے ہوتے ہیں ۔
زجاج کہتے ہیں : مرجان بہت زیادہ سخت سفید ہوتے ہیں ۔
ابن ابی یعلیٰ سے روایت ہے کہ مرجان بھی موتیوں کی ایک قسم ہے۔
امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اکتیسویں دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف رقم طراز ہے:
’’ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اکتیسویں دلیل یہ آیت ہے:
﴿وَ مَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْکِتَابِ﴾ (الرعد:۴۳) ’’اور جس کے پاس کتاب کا علم ہے ۔‘‘
ابو نعیم سے روایت کیا گیا ہے کہ : ابن الحنفیہ کہتے ہیں کہ اس سے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ مراد ہیں ۔ ثعلبی حضرت عبد اﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:’’ علم الکتاب کس کے پاس ہے ؟‘‘ فرمایا علی رضی اللہ عنہ کے پاس۔روایت یہ دلالت کرتی ہے کہ آپ افضل ہیں ؛ لہٰذا آپ ہی امام ہوں گے۔ ‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]
|