Maktaba Wahhabi

683 - 764
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر اور کامل تھے۔کیا یہ صرف حماقت و تکبر اور اخبار متواتر سے معلوم حقائق کے علاوہ بھی کوئی چیز ہوسکتی ہے۔ نبی کریم کے مقابلہ میں سب اہل اسلام ناقص ہیں ۔ مزید یہ کہ ہم عصمت ابی بکر کے قائل نہیں ہیں ۔ حزن ایمان کے منافی نہیں : [اعتراض]: رافضی مصنف نے کہا ہے:’’یہ آیت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بے صبری ؛اللہ تعالیٰ پر عدمِ ایمان؛نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مساوات اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قضاء و تقدیر پر عدمِ رضامندی کوظاہر کر رہی ہے۔‘‘ [جواب ]: رافضی کی یہ تمام باتیں ایک کھلا ہوا جھوٹ ہیں ۔آیت میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اس دعوی پر دلالت کرتی ہو۔اس کی دو وجوہات ہیں : پہلی وجہ:....کسی چیز سے روکنا اس کے وقوع پذیر ہونے کی دلیل نہیں ہے۔[یعنی ’’ لَا تَحْزَنْ ‘‘سے وقوع حزن لازم نہیں آتا]۔ بلکہ نہی کے الفاظ جہاں کہیں بھی وارد ہوئے ہیں ان سے مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ فعل ممنوع ہے تاکہ کہیں بعد میں اس فعل کا وقوع نہ ہوجائے۔ اس کی مثال سمجھنے کے لیے یہ آیات ملاحظہ ہوں : ۔ ۱....﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَ لَا تُطِعِ الْکَافِرِیْنَ وَالْمُنَافِقِیْنَ﴾ (الأحزاب:۱۰) ’’اے نبی ! اللہ تعالیٰ کا تقوی اختیار کرو ؛ کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کرو۔‘‘ یہاں پریہ دلیل کہیں بھی نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کی اطاعت کرتے تھے۔ایسے ہی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ۲....﴿وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ﴾ (القصص:۸۸) ’’اﷲ کے سوا کسی اور معبود کو نہ پکارنا۔‘‘ ۳....﴿وَ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ﴾ (القصص:۸۸) ’’اﷲ کے ساتھ کسی اورکو معبود نہ بنانا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کبھی بھی شرک کا ارتکاب نہیں کیا ۔ خصوصاً نبوت کے بعد تو شرک سے معصوم ہونے پر تمام امت کا اتفاق ہے ۔ اس لیے کہ آپ کو شرکیہ اعمال سے منع کردیا گیاتھا۔اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔پس اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ﴿لَا تَحْزَنْ﴾؛کہیں بھی اس بات پر دلالت نہیں کرتاکہ آپ واقعی غمگین ہوئے بھی تھے۔لیکن عقلی طور پر یہ ممکن ہے کہ آپ غمگین بھی ہوئے ہونگے۔لیکن اس قسم کی نہی اس لیے وارد ہوتی ہے کہ اس فعل کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ دوسری بات:....اگرفرض کیجیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ غم زدہ ہوئے بھی تھے تو محض اس لیے کہ کفار کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل نہ کردیں ۔آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی جان نثار کرنے کے لیے تیار تھے۔یہی وجہ ہے کہ:جب آپ ہجرت کے اس سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو دوران سفر ابوبکر رضی اللہ عنہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلنے لگتے کبھی آگے ۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ پوچھی تو عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ! جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ دشمن عقب سے آپ پر حملہ آور
Flag Counter