Maktaba Wahhabi

457 - 764
صحیحین میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: ’’ بنی نضیر اور بنی قریظہ نے جنگ کی، تو بنی نضیر کو جلا وطن کردیا گیا اور بنی قریظہ پر احسان کرکے ان کو رہنے دیا گیا لیکن انہوں نے دوبارہ آپ سے لڑائی کی تو مسلمانوں نے ان کے مردوں کو قتل کردیا اور عورتوں اور بچوں اور مال و اسباب کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا مگر جو لوگ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل گئے یعنی مسلمان ہو گئے وہ باقی رہ گئے باقی مدینہ کے تمام یہودیوں کو جو بنی قینقاع یعنی عبداللہ بن سلام کی قوم والے تھے اور بنی حارثہ کے یہودیوں کو جو بھی یہودی مدینہ میں تھے سب کو نکال دیا۔‘‘[1] فصل:....[غزوہ سلسلہ ] [اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ غزوۂ سلسلہ میں ایک اعرابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ کفار مدینہ میں آپ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا: کون شخص جو میرا جھنڈا لیکر چلے گا؟‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اﷲ کے رسول ! میں حاضر ہوں ۔‘‘ چنانچہ آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سات سو صحابہ کی معیت میں جھنڈا دے کر روانہ کیا۔ جب آپ دشمنوں کی طرف پہنچے تو انھوں نے کہا : اپنے ساتھی کے پاس لوٹ جائیے، ہماری تعداد بہت ہے۔ آپ واپس چلے گئے ۔ دوسرے روز آپ نے فرمایا: کون شخص جو میرا جھنڈا لے کر چلے گا؟‘‘چنانچہ آپ نے جھنڈاحضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تھما دیا ‘ ان کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آیا۔ تیسرے روز آپ نے فرمایا :علی کہاں ہیں ؟حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! میں یہ موجود ہوں ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا دے کر رخصت کیا۔آپ ان لوگوں کی طرف روانہ ہوئے؛ صبح کی نماز کے بعد آپ وہاں پر پہنچے۔ آپ نے دشمن کے چھ سات آدمی ہلاک کر دیے۔ اور باقی بھاگ گئے اﷲتعالیٰ نے امیر المؤمنین کے فعل کی قسم اٹھاتے ہوئے یہ آیت کریمہ نازل کی: ﴿وَالْعَادِیَاتِ ضَبْحًا﴾(العادیات:۱)’’اور قسم ہے سر پٹ دوڑتے گھوڑوں کی !۔ [جواب]:ہم کہتے ہیں کہ:جاہل ترین انسان بھی آپ سے پوچھ سکتا ہے کہ اس واقعہ کی سند بیان کیجیے تاکہ اس واقعہ کا صحیح ہونا ثابت ہوجائے۔ جب کہ اہل علم آپ سے یہ کہہ سکتے ہیں : [ایسا کوئی غزوہ سرے سے وقوع پذیر ہی نہیں ہوا]۔ یہ غزوہ -اورجوکچھ تم نے اس کی حکایات بیان کی ہیں - اسی قسم کا جھوٹ ہے جو طرقیہ بیان کرتے ہیں ۔جو کہ کثرت کے ساتھ افسانہ گوئی میں جھوٹ بولتے ہیں جیسے عنترہ اور بطال کے لا یعنی افسانے لوگوں میں مشہور ہیں ۔اگرچہ عنترہ کے کچھ مختصر واقعات ہیں بھی۔اور ایسے ہی بطّال کی کچھ سوانح حیات موجود ہے ۔ یہ وہ واقعات ہیں جو بنو امیہ کی حکومت میں اہل روم کے ساتھ غزوات میں پیش آئے۔ لیکن ان کے ساتھ جھوٹوں نے اتنے واقعات ملالیے کہ ان کی کئی مجلد تیار کرلیں ۔اور ایسے ہی شطاّر کی حکایات ‘ احمد دنف ‘زیبق مصری جوکہ ایسی
Flag Counter