Maktaba Wahhabi

275 - 764
’’اور رشتے دار اللہ کی کتاب میں ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں ۔‘‘ یہ وہی حلف ومؤاخات ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَ الَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ فَاٰتُوْہُمْ نَصِیْبَہُمْ ﴾ [النساء۳۳] ’’ اور جن لوگوں کو تمھارے عہد و پیمان نے باندھ رکھا ہے انھیں ان کا حصہ دو۔‘‘ فقہاء کے مابین اختلاف ہے کہ : کیا یہ آیت محکم ہے ؟ اور اس کے موجب سے نسب نہ ہونے پر میراث دی جائے گی یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں ۔اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی دو روایات ہیں ۔پہلامذہب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے ۔ اور دوسرا مذہب امام شافعی اور امام مالک رحمہما اللہ کا ہے ۔ فصل:....[ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ساتویں دلیل: حدیث الرایہ] [اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ اس ضمن میں ساتویں حدیث جسے جمہور نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔جب آپ نے انتیس (۲۹) راتوں تک خیبر کا محاصرہ کیا ؛ اس وقت تک علمبردار حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر آپ کو آنکھوں کی بیماری لاحق ہوگئی جس کی وجہ سے آپ جنگ سے عاجز آگئے۔تب مرحب جنگ کے لیے چیلنج کرتا ہوا نکلا۔اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلایا؛ اور فرمایا : یہ جھنڈا لے لو[اور حملہ کرو]۔ابوبکر نے جھنڈا لیااور مہاجرین کے ایک گروہ کے ساتھ مقابلہ کے لیے نکلے۔ مگر کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔شکست خوردہ واپس لوٹے۔اس کے اگلے دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ مقابلہ کے لیے نکلے۔آپ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ واپس لوٹے اور اپنے ساتھیوں کو بھی خبردی [یعنی انہیں بھی بزدل بناکرواپس لے آئے]۔اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لایا جائے۔آپ کو بتایا گیا: ’’آپ کی آنکھوں میں تکلیف ہے ۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا : ’’اسے لاکر مجھے دکھاؤ ؛ مجھے ایسا شخص دکھاؤ جو اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنیوالا ہے اوراللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔ جو بھاگنے والا نہیں ۔‘‘ اس وقت لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لیکر آئے۔ آپ نے اپنا لعاب دہن اپنی ہتھیلی پر لے کر آپ کی آنکھوں میں اور سر پر لگایا۔اس سے آپ تندرست ہوگئے۔ سو آپ نے انہیں علم عطا کیا ؛ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھوں پر فتح عطا کی ؛اور مرحب قتل ہوا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کے لیے یہ اوصاف بیان کرنا دوسروں سے ان اوصاف کے منفی ہونے اور آپ کی افضلیت کی دلیل ہے؛پس آپ ہی امام ہوں گے۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جوابات]: پہلا جواب :اس روایت کی صحیح سند کا مطالبہ کرتے ہیں ۔رافضی کا یہ کہنا کہ : ’’ اس روایت کو جمہور نے روایت کیا ہے ۔‘‘تو ہم کہتے ہیں کہ : ثقہ علماء نے یہ روایت ان الفاظ میں نقل نہیں کی۔ بلکہ صحیح روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خیبر میں موجود نہ تھے؛ بلکہ آپ غائب تھے۔آپ اس غزوہ سے اس لیے پیچھے رہ گئے تھے کہ آپ کی
Flag Counter