Maktaba Wahhabi

149 - 764
کی بنا پر حضرت جعفر رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ یا دوسرے صحابہ کی نسبت افضل نہیں تھے۔ چہ جائے کہ ان فضائل کی بنا پر کوئی ان کے لیے امامت کا دعوی کرنے لگے۔ تیرھویں بات :یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انفاق فی سبیل اﷲ عام طور سے معروف اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب تھا۔بیشک بھوکے کو کھانا کھلانا بھی صدقات کی جنس میں سے ہے۔ قیامت تک کوئی بھی انسان صدقہ کرسکتا ہے ۔ بلکہ تمام امت کے لوگ بھوکوں اور مساکین کو کھانا کھلاتے ہیں ‘ خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ۔ بھلے بعض لوگ اس سے تقرب الی اللہ نہ بھی چاہتے ہوں ۔جبکہ مسلمانوں کا مقصود اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا حصول ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں میں امتیازی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کا قول نقل فرماتے ہیں : ﴿اِِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلَا شُکُوْرًا ﴾ [الإنسان ۹] ’’ہم تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے کھلاتے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکرگزاری۔‘‘ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا انفاق انتہائی رشک کے قابل ہے ۔آپ اسلام کے ابتدائی دور میں اہل ایمان غلاموں کو آزاد کرانے ؛ قیدیوں کو چھڑانے کے لیے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ۔ کفار آپ کو اس پر اذیت دیتے ‘ اور آپ کے قتل کے درپے رہتے۔آپ نے اپنے مال سے سات غلام خرید کر آزاد کیے جنہیں اللہ کی راہ میں عذاب دیا جاتا تھا۔انہی میں سے ایک بلال بھی ہیں ۔حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : ابو بکر رضی اللہ عنہ ہمارے سردار ہیں ‘ اور آپ نے ہمارے سردار کو آزاد کیا ہے۔‘‘اس سے مراد حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہوا کرتے تھے ۔ اہل ایمان محتاجین اور اسلام کی نصرت کے لیے آپ کا انفاق فی سبیل اللہ ایک علیحدہ باب ہے۔آپ اس وقت اس راہ میں خرچ کرتے تھے جب تمام روئے ارض کے باسی اسلام کے دشمن تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے انفاق جیساانفاق آج کل ممکن ہی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میرے صحابہ کو برا نہ کہو مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی شخض احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو صحابہ کے عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ [1] اس طرح کا انفاق آپ کے ساتھ ہی خاص ہے۔ باقی رہ گیا مطلق طور پر بھوکوں کو کھانا کھلانا ؛ یہ مشترکہ قدر ہے ؛ قیامت تک اس پر عمل کیا جانا ممکن ہے۔ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بائیسویں دلیل: [اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بائیسویں دلیل یہ آیت ہے: ﴿وَالَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِہٖ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ﴾ (الزمر:۳۳)
Flag Counter