لیکن اس آیت سے استدلال کرنے والے رافضی سے پوچھا جائے گا کہ تم نے جھوٹ کے پلید ہونے پر کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔ جب اس پر کوئی دلیل نہیں ہے تو پھر اس سے کسی جھوٹ کو ختم کرنا لازم نہیں آتا۔اگر یہ بات مان لی جائے کہ ناپاکی کو ختم کردیا گیا ہے ؛ تو یہ کہنے والا کا شمار ان لوگوں میں ہوتا جو قرآن سے دلیل پیش کرتے ہیں ؛ قرآن میں اس ناپاکی کے دور ہوجانے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔ اور نہ ہی اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ جھوٹ اور خطاء بھی ناپاکی میں شمار ہوتے ہیں ۔ اور نہ ہی اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کبھی کچھ ایسا فرمایا ہو۔ بہر کیف اگر ان میں سے کوئی بات ثابت ہو بھی جائے تو وہ قرآن سے ماخوذ نہ ہوگی؛ اس کی بنیاد ایسے مقدمات پر ہوگی جو قرآن سے نہیں ہوں گے۔ پھر شیعہ مصنف کے قرآنی دلائل کہاں ہیں جن کا وہ ڈھنڈورا پیٹتا ہے؟ایسے جھوٹے دعوے تو صرف وہی انسان کرسکتا ہے جو اہل رسوائی و ندامت میں سے ہو۔
امامت علی رضی اللہ عنہ کی چھٹی دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے کہ:’’ امامت علی رضی اللہ عنہ کی چھٹی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے:
﴿فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہُ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ o إلی قولہ تعالیٰ....یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ﴾ (النور:۳۶۔۳۷)
’’ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے؛ وہاں صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو ۔....اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن دل اورآنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی۔‘‘
ثعلبی نے حضرت انس و بریدہ رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا اے اﷲ کے رسول !﴿فی بیوت﴾ سے کون سے گھر مراد ہیں ؟ آپ نے فرمایا:’’ انبیاء کے گھر‘‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:یارسول اللہ ! کیا یہ گھر یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کا گھر بھی ان میں شامل ہے ؟ آپ نے فرمایا:’’ یہ ان میں سے افضل ترین گھروں میں سے ہے۔اس میں وہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں جو افضلیت پر دلالت کرتے ہیں ؛ تو اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی امام ہوں ورنہ فاضل پر مفضول کی تقدیم لازم آئے گی۔‘‘[شیعہ مصنف کا بیان ختم ہوا]۔
جواب:اس کا جواب کئی وجوہ سے دیا جاسکتا ہے :
پہلی وجہ :....ہم شیعہ مصنف سے پوچھتے ہیں : اس دعوی کی صحت پر اس کی دلیل کیا ہے؟[ ہمارا دعویٰ ہے کہ وہ ہر گز اس کی دلیل پیش نہیں کر سکتا]۔کسی روایت کو ثعلبی کی طرف منسوب کردینا حجت نہیں ہوسکتا۔اس پر شیعہ اور اہل سنت کا اتفاق ہے۔جمہور میں سے کوئی ایک اگر کسی روایت کو نقل کرلیتا ہے تو یہ نقل جمہور کے ہاں حجت نہیں بن جاتی ۔بلکہ جمہور کا تو یہ اتفاق ہے کہ ثعلبی اور اس کے امثال کی روایات حجت نہیں ہوسکتی ۔نہ ہی حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے فضائل میں اور نہ ہی شرعی احکام میں ۔اس کی صرف یہ صورت ہوسکتی ہے کہ کسی ثابت شدہ سند سے اس روایت کی صحت
|