جب پیچھے رہ جانے والے اپنے عذر پیش کرتے ہوئے قسمیں اٹھاتے ہوئے آئے؛ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ظاہری باتوں کو قبول فرماتے رہے۔اور ان کے باطن کو اللہ کے سپرد کرتے رہے۔ لیکن آپ نے ان میں سے کسی ایک تصدیق نہیں فرمائی۔ مگر جب حضرت کعب رضی اللہ عنہ پیش خدمت ہوئے اور اپنا معاملہ سچائی کے ساتھ پیش کردیا تو آپ نے فرمایا: ’’ اس انسان نے سچ کہا۔‘‘
یا یہ الفاظ ارشاد فرمائے:’’ ان نے تم سے سچی بات کہی ۔‘‘[بخاری ۶؍۷؛ مسلم ۴؍۲۱۲۰]
ایسے ہی حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:
’’آپ نے فلاں اور فلاں کو تو دیا ‘ مگر فلاں انسان کو چھوڑ دیا حالانکہ وہ مؤمن ہے ۔‘‘[1]
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’[مؤمن ہے ]یا مسلم ہے ؟‘‘آپ نے دو یا تین بار یہ کلمات دھرائے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی خبر دینے کاانکار کیا اور ان کے بارے میں صرف ظاہری اسلام کے علم کا ہی اظہار کیا ۔
تو پھر آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیسے یہ فرماسکتے تھے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے ؛ اوراس کا کوئی علم آپ کو نہ ہوتا ۔ بغیر علم کے بات کرنا جائز نہیں ۔مزید برآں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جو خبر دی ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو برقرار رکھا ہے؛ اس کا انکار نہیں کیا۔پس اس سے معلوم ہوا کہ : یہ فرمانا: ﴿ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾۔’’ بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘ وہ سچی خبر ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا اور اس پر راضی رہا۔ان اخبار میں سے نہیں جن کا انکار کیا ہو‘اور عیب لگایا ہو۔
مزید برآں یہ بھی معلوم ہے کہ ایک معمولی عقل کا آدمی بھی سوچ سکتا ہے کہ ایک شخص جو ہر طرف سے دشمنوں کے نرغہ میں ہو، اور تمام لوگ اس کے دشمن ہو‘ اور اسے قتل کرنا چاہتے ہوں ؛ اس انسان کے عزیز و اقارب و رشتہ دار اس کی مدد و نصرت پر قادر نہ ہوں ؛ایسا شخص دوران سفر اپنی رفاقت کے لیے کسی ایسے شخص کا انتخاب کیسے کرسکتا ہے جو باقی لوگوں میں سے اکیلا محبت و دوستی اور غم وپریشانی کا اظہار کررہا ہو‘ لیکن باطن میں وہ پکا دشمن ہو۔اور ساتھ لے جانے والا یہ گمان کررہا ہو کہ وہ میرا دوست اور غمخوارہے۔ایسا تو کوئی بیوقوف ترین انسان بھی نہیں کرسکتا۔ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہو جو اپنے کامل و اکمل باعلم و خبردار و ہوشیاررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی جہالت و حماقت منسوب کرتے ہیں جس کا ارتکاب کوئی ادنی اور جاہل انسان بھی نہیں کرسکتا۔[یا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جاہل و غبی تصور کرتے ہیں ]۔
مغل بادشاہ خدا بندہ کا عجیب قصہ :
مجھے مغل بادشاہ خدا بندہ ؛ جس کے لیے رافضی مصنف نے یہ کتاب تألیف کی تھی؛ اس کے متعلق یہ اطلاع ملی ہے
|