Maktaba Wahhabi

668 - 764
تھے۔جیسا کہ حارث بن ہشام؛ ابو سفیان بن حارث ‘اور سہیل بن عمرو ۔یہ حضرات ان بعض لوگوں پر سبقت لے گئے تھے جو فتح سے پہلے ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ جیسا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے سے پہلے ایمان لانے والے کئی لوگوں پر علمی لحاظ سے سبقت لے گئے تھے۔ یہاں پر مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں صحبت کا شرف پانے والوں کو روک دیا تھا کہ وہ پہلے ایمان لانے والوں کی دل آزاری کریں ۔اس لیے کہ یہ لوگ پرانی اورسابق صحبت کی وجہ سے ایسی خصوصیت و امتیازیت رکھتے ہیں جس میں دوسرے لوگوں کے لیے ان کا سہیم و شریک ہونا ممکن نہیں ۔ حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمادیا: ’’ اگر کوئی تم میں سے احد پہاڑ کے برابر سونا اللہ تبارک و تعالی کی راہ میں خرچ کرے تو میرے اصحاب کے ایک مد(سیر بھر وزن)یا آدھے(کے ثواب) کے برابر بھی(ثواب کو) نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ جب یہ حال ان لوگوں کا ہے جو فتح کے بعد اسلام لائے اوراللہ کی راہ میں جہاد کیا۔یہ لوگ فتح مکہ کے بعد اسلام لانے اور جہاد کرنے والے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم [اصحاب سابقین] کے تابعین میں سے ہیں ۔تو پھر اس انسان کو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کیسے کیا جاسکتا ہے جس کا شمار کسی طرح سے بھی صحابہ میں نہ ہوتا ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: ’’میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو‘‘صحیحین میں کئی اسناد سے ثابت ہے۔ان میں سے ایک یہی سابقہ سند ہے جوکہ گزر چکی۔صحیح مسلم میں یہی روایت بعینہٖ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! ، اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو ان کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[سبق تخریجہ] نبوت و صداقت کی رفاقت اوررافضی حسد: [اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ممکن ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے رفیق سفر بنایا ہو کہ مبادا وہ آپ کے معاملہ کو ظاہر کردے۔‘‘ [جواب]:ہم کہتے ہیں یہ چند وجوہ کی بنا پر باطل ہے۔ پہلی وجہ:....قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے الفت و محبت کا سلوک کرتے تھے۔ ان کے مابین کوئی دشمنی نہیں تھی۔ اس سے رافضی کا [دشمنی اور بغض کا]دعوی باطل ثابت ہوگیا۔ دوسری وجہ:....حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مومن و محب رسول ہونا تواتر معنوی کے ساتھ معلوم ہے۔اوریہ کہ آپ کو تمام مخلوق میں خصوصیت حاصل تھی۔یہ تواتر اور اس کی شہرت حاتم طائی کی سخاوت اورعنترہ کی شجاعت؛اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت اور موالات کے تواتر سے بھی زیادہ ہے۔ان کے علاوہ دیگر بھی معنوی تواترات ہیں جن میں تمام اخبار و روایات کا ایک مقصود پر اتفاق ہے۔
Flag Counter