Maktaba Wahhabi

574 - 764
چوتھی بات:....پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نمازیں پڑھانے کا حکم دیا؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ حکم نہیں دیا۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا مقصود ہوتا تو آپ مرض الموت میں ان کو امام صلوٰۃ مقرر فرماتے اورابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کی اجازت نہ دیتے۔اورایسے ہو بھی کیسے سکتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر امیر مقرر نہیں کیا۔ ٭ بلکہ صحیحین کی روایت میں ہے: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف کے مابین صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’ جب نماز کا قوت ہوجائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہنا کہ لوگوں کو نماز پڑھادیں ۔ اور ایسے ہی اپنی بیماری کے دن میں بھی اور جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجاتب بھی۔ پھر ان کے پیچھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔یہ تابع بن کر آئے۔ او رحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی امام تھے جو لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے لوگوں کو حکم دیتے اوروہ آپ کی اطاعت کرتے۔ سن نو ہجری کے حج میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پرامیر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بنایا گیا تھا۔ باقی لوگوں پر بھی امیر آپ ہی تھے۔اور آپ ہی انہیں نمازیں بھی پڑھاتے تھے۔ فصل:....[حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ولایت منصب] [اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: دسواں سبب:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کوئی منصب عطا نہیں کیا تھا، اس کے برعکس حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ پر امیر مقرر کرکے بھیجا تھا۔‘‘ [جواب]:ہم کہتے ہیں کہ: شیعہ کا قول کئی وجوہات کی بنا پر باطل ہے: پہلی وجہ:....معاملہ اس دعوی کے برعکس ہے۔ جو ولایت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تفویض کی گئی تھی ؛ اس میں کوئی دوسرا آپ کا سہیم و شریک نہیں ۔ یہ ولایت حج ہے۔یہ منصب عالی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تفویض کیا گیا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا بہت سے لوگوں کو مختلف علاقوں کی امارت عطا کی گئی تھی۔ دوسری وجہ:....اس بات پر شیعہ اور اہل سنت سب کا اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو بھی ولایت تفویض کی جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نسبت بہت ہی فروتر تھے؛ مثلاً :عمر و بن عاص و ولید بن عقبہ اور ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہم ۔ تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے افضل تھے اور ولایت و امارت نہ ملنے کی وجہ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ ان سے فروتر درجہ کے تھے ۔ تیسری وجہ:....امارت کا نہ ملنا نقص پر دلالت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ کبھی ولایت اس لیے بھی ترک کردی جاتی ہے کہ اس کے لیے جو دوسرا مقام ہے ؛ وہ اس ولایت سے زیادہ نفع بخش و سود مند ہے۔اورانہیں اپنے پاس رکھنے کی ضرورت بہت زیادہ تھی ۔اور مسلمان دوسرے لوگوں کی وجہ سے ان سے بے نیاز ہوسکتے تھے۔ولایت نہ دینے کی وجہ وجیہ یہ تھی کہ
Flag Counter