Maktaba Wahhabi

328 - 764
اگروہ اس خبرکے دینے میں جھوٹا ہو تو اس کی خبر میں اختلاف پایا جائے۔ اس لیے کہ جھوٹ بولنے والے کا ایک لمبے واقعہ کی تفصیل بغیر کسی اختلاف کے بیان کرنا ممتنع ہے۔ خصوصاً ان امور میں جن کی طرف عقل ہدایت پاتی ہے۔بلکہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ دونوں خبر دینے والوں نے علم پر مبنی سچی خبر دی ہے۔ لوگوں کے احوال اسی طریقہ سے معلوم ہوتے ہیں ۔ پس اگر کوئی انسان کسی دوسرے شہر سے آتا ہے اور وہ وہاں پر پیش آنے والے کچھ واقعات کے بارے میں تفصیلی خبردیتا ہے۔جس میں مختلف قسم کے اقوال و افعال کو انتہائی منتظم انداز میں بیان کرتا ہے۔ پھرایک دوسرا آدمی آتا ہے جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ ان دونوں کا جھوٹ پر اتفاق نہیں ہے؛ اور پھر وہ بھی پہلے آدمی کی طرح خبر دیتا ہے۔ تو اس سے قطعی طور پر یقینی علم حاصل ہوجاتا ہے کہ واقعہ بالکل ایسے ہی پیش آیا ہے۔ اس لیے کہ ایسے واقعات میں کبھی کبھار جھوٹ بھی سامنے اس وقت آتا ہے جب دونوں کا جھوٹ پر اتفاق ہوا ہو؛ اور وہ انہوں نے یہ معلومات ایک دوسرے سے حاصل کی ہوں ۔جس طرح کہ اہل باطل ؛ باطل عقائد ایک دوسرے سے وراثت میں نقل کرتے چلے جاتے ہیں ؛ جیسے نصاری ؛ جہمیہ اور رافضہ؛ اور ان کی مانند کے دوسرے لوگ۔ اس میں کوئی شک نہیں اگرچہ ان کا باطل ہونا عقلی ضرورت کے تحت معلوم ہوتا ہے لیکن پھر بھی یہ ایک دوسرے سے ایسے ہی نقل کرتے چلے جاتے ہیں ۔ جب اس پر ان کی آپس میں ایک دوسرے سے موافقت ہے تو ان کا باطل پر اجماع بھی جائز ٹھہرا۔ بہت ساری جماعتیں ایسی ہیں جن کا علی سبیل التواطؤ [بطور اتفاق ] ضروریات کے انکار پر اتفاق جائز ہے؛ خواہ ایسا عمداً جھوٹ بولنے کی وجہ سے ہو یا پھر عقیدہ میں خطا کی وجہ سے ہو۔ جب کہ اس سے کم دوسری ضروریات کے انکار پر ان کا اتفاق ممتنع ہے۔ فصل: جھوٹ کی پہچان کے ذرائع : یعنی : ان طریقوں کے بیان میں جن سے منقولات میں جھوٹ کا ہونا معلوم ہوجاتا ہے۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ اس مشہور اور متواتر طریقہ سے معلوم واقعہ کے خلاف نقل کیا جائے۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ: مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کیا تھا۔ اور بنی حنیفہ کی بہت بڑی تعداد نے اس کی اتباع کی تھی؛ اس وہ جہ وہ لوگ مرتد ٹھہرے تھے کہ وہ اس جھوٹے نبی پر ایمان لے آئے تھے۔ اور یہ کہ ابو لؤلؤ ؛ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قاتل ؛ مجوسی کافر تھا۔ اور ابو ہرمزان مجوسی تھا؛ پھر مسلمان ہوگیا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے جانشین رہے او رلوگوں کو اس ساری مدت میں نمازیں پڑھاتے رہے۔ یہ کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں دفن کیا گیا ہے۔ جیسا کہ جو کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان غزوات کے بارے میں معلوم ہوتا ہے جن میں جنگ کی نوبت آئی تھی ؛ جیساکہ غزوہ بدر؛
Flag Counter