باب سوم :....تیسرا منہج :
امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ پر احادیث نبویہ سے استدلال
[سلسلہ اشکالات ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’تیسرے باب میں ان احادیث نبویہ سے استدلال کیا جائے گاجو کہ مستند ہیں ؛اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہیں ۔ان دلائل کی تعداد بارہ ہے:
۱۔پہلی حدیث: ان میں سے ایک وہ حدیث ہے جو سب لوگوں نے بیان کی ہے کہ جب یہ آیت کریمہ: ﴿وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾ ’’ اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے ‘‘نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام بنی عبد المطلب کو ابو طالب کے گھر میں جمع کیا۔[ ان میں دو عورتیں اور] چالیس مرد تھے۔ آپ نے ان کے لیے بھیڑ کی ایک ٹانگ ایک مٹھی بھر جو کے ساتھ پکانے اور ایک صاع دودھ تیار کرنے کا حکم دیا۔[ کھانا پکایاگیا]۔ان میں سے ایک آدمی ایک وقت میں ایک بکرا کھا سکتا تھا؛اور اسی مجلس میں ایک مشک پانی کی بھی پی سکتا تھا[یہ کھاؤ پیو آدمی تھے]۔ ان تمام لوگوں نے یہ تھوڑا سا کھانے کھایا اور اس سے سیر ہو گئے۔ اور انھیں پتہ نہ چل سکا کہ انھوں نے کیا کھایا ہے ؛ آپ کی اس اعجاز نمائی سے ان پر واضح ہو گیا کہ آپ سچے نبی ہیں ۔ آپ نے فرمایا: اے بنی عبد المطلب! یوں تو مجھے اﷲتعالیٰ نے سب لوگوں کی طرف مبعوث کیا ہے، مگر خاص طور سے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے۔ اﷲتعالیٰ نے مجھے مامور فرمایا ہے: ﴿وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾’’ اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے ۔ ‘‘
میں تمھیں دو ہلکے پھلکے کلمات کی طرف دعوت دیتا ہوں ۔ جن کا زبان پر جاری کرنا بڑا آسان ہے اور جو میزان اعمال میں بڑے بوجھل ہوں گے۔ تم ان دونوں کلمات کی برکت سے عرب و عجم کے مالک بن جاؤ گے اورجملہ اقوام عالم تمہارے زیر نگیں ہو جائیں گی۔ ان کلمات کی بنا پر تم جنت میں جاؤ گے اور جہنم سے رہائی پاؤ گے۔ وہ کلمات یہ ہیں :
(( اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔))
جو شخص میری اس دعوت کو قبول کرے گا اور میری مدد کرے گاوہ میرا بھائی میرا وصّی میرا وزیر اور میرے بعد میرا خلیفہ اور وارث ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی سن کرباقی لوگوں میں سے کسی ایک نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ جب کہ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اﷲ کے رسول! میں اس کے لیے تیار ہوں ۔ میں اس مسئلہ میں آپ کی مدد کروں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ’’ بیٹھ جاؤ۔‘‘آپ نے اس قوم میں پھر یہی اعلان دھرایا ؛ مگر تمام لوگ خاموش رہے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں دوبارہ کھڑا ہوگیا؛ اور وہی پہلے والی بات دھرائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بیٹھ جائیے۔ آپ نے پھر تیسری بار لوگوں میں یہی اعلان کیا ۔ مگر لوگ خاموش رہے ۔ ان میں سے کسی ایک نے اپنی زبان سے ایک کلمہ تک نہ کہا۔ میں کھڑا ہوگیا اور عرض کی : اے اللہ کے رسول! میں اس مسئلہ میں آپ کی مدد کروں گا۔ آپ نے فرمایا :
|