پھر اس بہتان تراش سے اگر یہی باتیں [الزامی جواب میں ] حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کہی جائیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوباطن کا علم تھا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمن رکھتے ہیں ۔اوریہ کہ خلفاء ثلاثہ کے دور حکومت میں آپ اپنی ملت کو مبتلائے فساد کرنے سے عاجز تھے۔جب اکابر صحابہ اس دنیا سے چلے گئے تو انہوں نے ملت میں فساد پیدا کرنا شروع کردیا ۔ امت کوہلاک کیا ‘مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو قتل کیا ۔اور آپ چاہتے تھے کہ باقی لوگوں کو بھی ہلاک و برباد کردیں مگر ایسا نہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھنے والے زندیق جیسے : قرامطہ؛اسماعیلیہ؛اور نصیریہ آپ کی صفوں میں شامل ہوگئے۔ آپ کوئی بھی اسلام کا دشمن نہیں پائیں گے مگر وہ اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے محبت علی رضی اللہ عنہ کی آڑ کا سہارا لیتا ہے۔اس کے لیے ایسا کوئی کام حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی محبت و موالات کا اظہار کرتے ہوئے ممکن نہیں رہتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موالات کا شبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دشمنی کے شبہ سے بڑھ کر ہے۔ اور یہ دونوں باتیں باطل ہیں ۔ان کا فاسد ہونا اضطراری طورپر معلوم ہے۔لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق اس قسم کے دعوی کو باطل کرنے والے دلائل موالات علی رضی اللہ عنہ کے دلائل سے زیادہ قوی اور صحیح ہیں ۔اور آپ کی دشمنی کے دلائل بھی باطل ہیں ۔ ایسے ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دشمنی کے دلائل باطل اور موالات و محبت کے دلائل درست اور صحیح ہیں ۔
سفر ہجرت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رفاقت:
تیسری وجہ:....رافضی کا یہ احتمال کہ: ممکن ہے آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس خوف سے ساتھ لے لیا ہو کہ آپ کا معاملہ ظاہر نہ کردے ۔‘‘
جواب:....یہ حالات و واقعات سے بہت بڑے جاہل انسان کا کلام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ سے ہجرت کا واقع صاف ظاہر اور واضح ہے۔ہر شخص اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ غار میں چھپے ہوئے تھے۔ اہل مکہ کو بھی اس کا پتہ چل گیا اور انھوں نے دونوں کو تلاش کرنے کے لیے ہرطرف آدمی بھیج دیے۔اس لیے کہ جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اس کی صبح ہی لوگوں کو پتہ چل گیا کہ ابوبکربھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں ۔لہٰذا قریش مکہ نے اعلان کیا تھا کہ جو شخص دونوں میں سے کسی کو پکڑ لائے گا اسے [دیت کے برابر]انعام دیا جائے گا۔پس انہیں کس چیز کا خوف تھا؟مشرکین کے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر لانے پر انعام کے اعلان سے واضح ہوتا ہے کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حب رسول سے آگاہ تھے۔ اور یہ بھی جانتے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ظاہری وباطنی طور پر مشرکین سے دشمنی رکھتے تھے۔ اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ باطن میں آپ مشرکین کے ساتھ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہوتے تو قریش مکہ آپ کی گرفتاری کے لیے انعام کا اعلان نہ کرتے۔
چوتھی وجہ:....مزید براں آپ رات کے وقت نکلے تھے جب کہ کوئی شخص اس سے آگاہ نہ تھا۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت تھی؟
|