علماء رحمہم اللہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔یہاں تک کہ امام ثوری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے :
’’ جو کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتا ہے ؛ میں نہیں سمجھتا کہ اس کا کوئی عمل اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوتا ہوگا ۔‘‘[1]
مزید برآں حماد بن زید؛ حماد بن سلمہ؛ سعید بن ابی عروبہ ؛ اور ان کے امثال علماء بصرہ ؛ اوزاعی ؛ سعید بن عبد العزیز جیسے علماء شام ؛ اورمصری علماء میں سے عمر بن حارث و لیث بن سعد و ابن وہب ؛ پھر ان کے بعد عبد اللہ بن مبارک ؛ وکیع ابن الجراح ؛ عبد الرحمن بن مہدی؛ ابو یوسف ؛ محمد بن الحسن ؛ اور امام شافعی؛ احمد بن حنبل؛ اسحاق بن ابراہیم ؛ ابی عبید ؛ امام بخاری ؛ ابو داؤد ؛ ابراہیم الحربی؛ اور فضیل بن عیاض ؛ ابو سلیمان الدارانی ؛ معروف الکرخی؛ سری السقطی ؛ جنید ؛ سہیل بن عبداللہ التستری؛اور لا تعداد علماء رحمہم اللہ جن کی صحیح تعداداللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا؛ اسلام میں جن کی سچائیوں کے چرچے ہیں ؛یہ تمام حضرات حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی تقدیم و فضیلت کا دو ٹوک اور قطعی عقیدہ رکھتے تھے۔اور ان دونوں اصحاب کو ائمہ بر حق مانتے تھے۔ ان حضرات کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت اور سنت پر عمل کی مشکورانہ کوششیں ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان حضرات کو پتہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو تقدیم بخشتے تھے ۔اور محبت و ثناء اور مشاورت میں ان کو فضیلت دیتے تھے۔ان کے علاوہ بھی فضیلت کے کئی اسباب تھے۔
امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی انتالیسویں دلیل:ٗ
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی انتالیسویں دلیل یہ آیت ہے:
﴿ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ اَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَہِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غٰفِلِیْنَ﴾ (الأعراف:۱۷۲)
’’ اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں ! ہم سب گواہ بنتے ہیں ۔تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے ۔‘‘
کتاب الفردوس میں حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امیر المومنین کے لقب سے کب ملقب کیا گیا تھا تو ان کی فضیلت کا انکار نہ کرتے۔ آپ اس وقت اس لقب سے نوازے گئے تھے؛جب آدم کی تخلیق ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ اَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُم ﴾
’’فرشتوں نے اﷲ کی ربوبیت کا اقرار کیا تو اﷲتعالیٰ نے فرمایا: میں تمہارا رب ہوں ۔ محمد تمہارے نبی ہیں اور
|