﴿وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ وَ بَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا وَ قَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ﴾ [المائدۃ ۱۲]
’’اور بلاشبہ یقیناً اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور ہم نے ان میں سے بارہ سردار مقرر کیے اور اللہ نے فرمایا بے شک میں تمھارے ساتھ ہوں ، اگر تم نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور میرے رسولوں پر ایمان لائے۔‘‘
اور ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ [الأنفال ۱۲]
’’ جب آپ کا رب فرشتوں کو حکم دیتا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں سو تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ ۔‘‘
جب اللہ تعالیٰ اس کا معیت کا ذکر کرتے ہیں تو کبھی اس سے معیت عامہ مراد ہوتی ہے اور کبھی معیت خاصہ ۔ اس میں کہیں بھی یہ دلیل نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ پر موجود ہے ‘ اور اس کا وجود عین مخلوقات کا وجود ہے۔ اور اس طرح کے دیگر عقائد جو کہ جہمیہ نے ایجاد رکر لیے تھے۔ جو کہ حلول عام ‘ وحدت الوجود ؛ اور اتحاد کے قائل ہیں ۔ اس لیے کہ اس قول کے مطابق کسی ایک قوم کو چھوڑ کر دوسری قوم کی تخصیص نہیں کی جاسکتی۔ اور نہ ہی کسی ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ کی تخصیص کی جاسکتی ہے۔ بلکہ اس عقیدہ کے مطابق تو اللہ تعالیٰ بکروں کے باڑوں اور گھوڑوں کے اصطبل میں اور چوپاؤں کے شکم کے اندر بھی ویسے ہی موجود ہوگا؛ جیسا کہ وہ عرش کے اوپر ہے[جبکہ یہ کسی بھی مسلمان کا عقیدہ نہیں ]۔
جب اللہ تعالیٰ خود اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ وہ کسی ایک قوم کو چھوڑ کر دوسری کے ساتھ ہے تو یہ اس سابقہ بیان کردہ عقیدہ کے نقیض پر دلالت کرتا ہے۔ اس لیے کہ اس عقیدہ کے مطابق کسی ایک قوم کو چھوڑ کر دوسری کی تخصیص ممکن نہیں رہتی۔ بلکہ اس عقیدہ کے مطابق وہ اصطبل میں بھی ایسے ہی ہے جیسے عرش پر۔
قرآن کریم کبھی معیت کے اختصاص پر اور کبھی عموم پر دلالت کرتاہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ معیت سے مراد اختلاط نہیں ۔
[عقیدہ حلول پر ردّ]
مزید برآں اس آیت کریمہ میں ان لوگوں پر بھی رد ہے جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ظاہر قرآن عقیدہ حلول پر دلالت کرتا ہے ۔ لیکن کبھی ظاہر کے خلاف تأویل متعین ہوسکتی ہے۔ اور اسے اصل بناکر تاویل کردہ نصوص کو اس پر قیاس کیا جاتا ہے۔
اس کے جواب میں انہیں کہا جائے گا کہ : قرآن اس غلطی پر دلالت کرتا ہے۔جیسا کہ آپ کے ساتھ دوسرا شخص بھی اس مدلول کے غلط ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے۔اس کی کئی ایک وجوہات ہیں :
٭ پہلی وجہ:....عرب لغت میں لفظ ’’ مع‘‘ یعنی (ساتھ ) مصاحبت ‘ موافقت اور اقتران پر دلالت کرتا ہے۔ جب کہ عام استعمال میں یہ لفظ کسی موقع پر بھی یہ دلالت نہیں کرتا کہ پہلا دوسرے کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ
|