Maktaba Wahhabi

179 - 764
زمین پر کوئی چیز زیادہ پیدا ہوتی ہو؛ اسے اسی کے نام سے موسوم کردیا جاتا ہے۔جیسا کہ کہا جاتا ہے: فلاں انسان زیتون کی زمین کی طرف گیا ہے؛ فلاں اناروں والی زمین کی طرف گیا ہے۔ اور اس طرح سے دیگر نام بھی دیے جاتے ہیں ۔اور اس سے مراد وہ سر زمین ہوتی ہے جہاں پر یہ چیزیں کثرت کے ساتھ ہوتی ہیں ۔ طورسنین [بیت ا لمقدس کے قریب]وہ سر زمین ہے جہاں پر اللہ تعالیٰ نے حضر ت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا۔ اور بلد الامین سے مراد مکہ مکرمہ ام القری ہے جہاں پر رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور اور بعثت ہوئی۔ اس آیت کے معنی سے جاہل لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ جو درہم اعلانیہ خرچ کیا جاتا ہے جو کہ خفیہ خرچ کرنے کے علاوہ ہے۔ اور ایسے ہی رات کو خرچ کیا جانے والا دن کو خرچ کردہ درہم کے علاوہ ہے۔ اور پھر یہ دعوی کر بیٹھتا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو چاردرہم خرچ کریں ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ کسی کے پاس چار درہم ہوں ؛ خواہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہوں یا کوئی دوسرا ہو۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے : ﴿ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِی اللیل وَالنَّہَارِ سِرًّاوَّ عَلَانِیَۃً﴾ (البقرہ:۲۷۴) ’’جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن میں چھپ کر اورکھلے عام خرچ کرتے ہیں ۔‘‘ یہاں پر [والنہارسرا] میں حرف عطف واؤ نہیں لایا گیا ۔بلکہ یہ دونوں رات اور دن میں داخل ہیں ۔ اس آیت کے معانی سے جاہل انسان اس وہم کا شکار ہوگیا کہ جو خفیہ طور پر اور اعلانیہ خرچ کرتا ہے وہ اس آدمی کی طرح نہیں ہے جو دن و رات میں خرچ کرتا ہے ؛۔اس لیے وہ کہتا ہے کہ : یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی جن کے پاس چار درھم ہوں ۔ بلکہ سرّ و اعلانیہ دونوں لیل و نہار(شب و روز) میں بھی داخل ہیں خواہ سراً و علانیہ مصدر ہونے کی بنا پر منصوب ہوں یا حال ہونے کی وجہ سے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رافضی قرآنی اندازِ دلالت سے بالکل جاہل ہے ۔اور رافضیوں میں اس قسم کی جہالت کا پایا جانا کو ئی اچھوتی بات نہیں ہے۔ پانچویں بات:....اگر مان لیا جائے کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ؛اور آپ نے ایسا کیابھی تھا؛ تو کیا چار دراہم کے چار احوال میں خرچ کرنے کے علاوہ اللہ کی راہ میں کوئی خرچہ نہیں کیا جاسکتا۔یہ عمل تو ایسا ہے کہ ہر شخص کے لیے خرچ کرنے کا دروازہ کھلا ہے اور تاقیامت کوئی ممانعت نہیں ۔اور اس پر عمل کرنے والے بلکہ اس سے کئی گنابڑھ چڑھ کر خرچ کرنے والے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا اعداد و شمار ممکن نہیں ؛اور ان میں سے ہر ایک میں خیر و بھلائی کا عنصر پایا جاتا ہے ۔اس میں نہ ہی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خصوصیت ہے اور نہ ہی اس سے فضیلت اورامامت ثابت ہوتی ہے۔ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اٹھائیسویں دلیل: [اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اٹھائیسویں دلیل امام احمد بن حنبل صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ روایت ہے جو انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی:﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾
Flag Counter