’’اے ایمان والو ‘‘ آیا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے رئیس و امیر ہیں ۔ اﷲتعالیٰ نے قرآن کریم میں اصحاب رسول کو معتوب کیا ہے‘‘ مگر علی رضی اللہ عنہ کا ذکر ہمیشہ مدحیہ انداز میں کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں ۔ لہٰذا آپ ہی امام ہوئے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]۔
[جواب]:ہم شیعہ سے زیر تبصرہ روایت کی صحت ثابت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ، یہ روایت امام احمد نے نقل نہیں کی ، اور اگر بالفرض امام صاحب نے ’’الفضائل‘‘ وغیرہ میں نقل بھی کی ہو تو صرف نقل کرنے سے روایت کی صحت و صداقت ثابت نہیں ہوتی؛ توپھر کیسے کوئی بات کہہ سکتے ہیں جب کہ آپ نے یہ روایت نہ ہی مسند میں نقل کی ہے اور نہ ہی الفضائل میں ۔ بلکہ یہ روایت ’’فضائل صحابہ ‘‘ میں القطیعی کے اضافات میں سے ہے۔اس کی سند یہ ہے :
((عن ابراہیم عن شریک الکوفی؛ حدثنا ذکریا بن یحی الکسائی حدثنا عیسی عن علی بن بذیمہ عن عکرمہ عن ابن عباس۔))
اہل علم کا اتفاق ہے کہ ایسی سند قابل حجت نہیں ہوسکتی۔[ دراصل یہ ابن عباس پر افتراء ہے]۔ اس روایت کی سند میں زکریابن یحی الکسائی نامی راوی ہے۔اس کے متعلق یحی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’انتہائی برا آدمی تھا ؛ اپنی طرف سے حدیثیں گھڑا کرتا تھا ؛ اس بات کا مستحق تھا کہ اس کے لیے کنواں کھود کر اس میں گرا دیا جائے ۔‘‘
امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’متروک الحدیث ہے ۔ ‘‘
ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’صحابہ کرام پر طعنہ زنی کے لیے روایات گھڑا کرتا تھا۔ ‘‘
دوسری بات:....یہ بات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پر جھوٹ گھڑی گئی ہے ۔ بخلاف ازیں ابن عباس سے بتواتر منقول ہے کہ آپ شیخین کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل قرار دیتے تھے۔ ابن عباس نے کئی دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معتوب کیا اور ان کی مخالفت کی۔کئی امور میں آپ پر تنقید کیا کرتے تھے۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان زنادقہ کو نذر آتش کیا تھا جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رب ماننا شروع کردیا تھا؛ توحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اگر علی رضی اللہ عنہ کی جگہ میں ہوتا تو زنادقہ کو جلانے کی بجائے ان کو قتل کردیتا،کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:’’ کسی کو عذاب الٰہی میں مبتلا نہ کرو۔‘‘ [1]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ’’ جوکوئی اپنے دین کو بدل ڈالے ؛ اسے قتل کردو۔‘‘ [صحیح بخاری]
جب اس بات کی خبر حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا : ’’ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ماں کے لیے افسوس ہے ۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ آپ کتاب اللہ کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے ؛ جب آپ کے پاس کتاب و سنت سے دلیل موجود نہ ہوتی تو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے۔ یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی جناب ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی اتباع اورحضرت علی رضی اللہ عنہ سے مخالفت کی ایک مثال ہے۔
|