جائز نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں خلیفہ بنتے۔ تو اس وقت آپ ہر مؤمن کے لیے اس کی جان و مال سے بڑھ کر محبوب و مقدم نہیں تھے۔ اور اگر مولی کے لفظ سے مراد خلافت لی جائے تو اس وقت آپ کسی ایک مؤمن پر بھی خلیفہ نہیں تھے۔
اس سے ظاہر ہوگیا کہ ان الفاظ سے خلافت مراد نہیں ہے ۔ اپنی جانوں سے بڑھ کر محبوب ہونا ایسا وصف ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی ثابت ہے؛ جس کے لیے موت کے بعد تک کا کوئی انتظار نہیں کیا گیا ۔ جب کہ خلافت کا معاملہ اس سے مختلف ہے ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک کوئی بھی خلیفہ نہیں تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا حدیث سے جو معنی شیعہ مراد لیتے ہیں ‘ وہ کہیں بھی ثابت نہیں ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں اور موت کے بعد بھی قیامت تک کے لیے اہل ایمان کے لیے ان کی جان و مال سے بڑھ کر محبوب و قریب ہیں ۔ جب آپ کی حیات مبارک میں ہی کوئی انسان بعض امور پر نائب بنایا جائے‘ یا تسلیم کرلیا جائے کہ کوئی انسان بعض امور میں آپ کی حیات مبارک میں ہی خلیفہ یا نائب بن جائے اور اسے اجماع اور نص کی روشنی میں خلیفہ تسلیم کرلیا جائے۔تو وہ اس خلافت کا [آپ کے بعد بھی ] زیادہ حق دار ہوگا‘ اور اہل ایمان کے لیے ان کی جانوں سے بھی بڑھ کر مقدم ہوگا‘ تو پھر کوئی دوسرا انسان اس کو چھوڑ کر اہل ایمان کے لیے ان کی جانوں سے بڑھ کر محبوب نہیں ہوگا۔ خصوصاً آپ کی حیات مبارک میں ۔
رہ گیا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام کا ہر اہل ایمان کا ولی اور دوست ہونا؛ یہ ایسا وصف ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ [یا دیگر صحابہ کرام ] کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں بھی ثابت ہے ؛ اور وفات کے بعد بھی۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بھی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ آج بھی ہر مومن کے دوست اور محبوب ہیں ‘ جب کہ آج آپ کسی پر بھی والی یا حاکم نہیں ہیں ۔ یہی حال باقی تمام اہل ایمان کا ہے ۔ وہ اپنی زندگیوں میں بھی اور موت کے بعد بھی اہل ایمان کے دوست ہیں ۔
فصل:....امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تیسری دلیل؛ حدیث ’’أنت منی بمنزلۃ‘‘
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے :’’ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثبات میں تیسری حدیث یہ ہے:
’’ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی اِلَّا اَنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔‘‘
’’تم میرے لیے بلحاظ منزلت ایسے ہو جیسے ہارون حضرت موسیٰ کیساتھ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔‘‘
اﷲتعالیٰ نے حضرت ہارون علیہ السلام کو یہ مرتبہ عطا کیا تھا کہ وہ تمام مراتب میں بغیر کسی استثنیٰ کے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قائم مقام تھے۔اور اگر ان کے بعد زندہ رہتے تو ان کے خلیفہ ہوتے۔اگر ایسا نہ ہو تو اس سے نقص لازم آتا ہے۔ اور نیز اس لیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میں اورآپ کی غیوبت کے مختصر سے عرصہ میں آپ کے قائم مقام رہ چکے تھے۔
|