Maktaba Wahhabi

485 - 764
فرمایا تھا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ ایک راہ پر چلتے ہیں تو شیطان وہ راستہ چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کرتا ہے۔‘‘ جب شیطان عمر رضی اللہ عنہ سے دم دبا کر بھاگتا تھا تو اس کی اولاد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کیوں کر لڑ سکے گی؟ نیز یہ کہ شیاطن اور جنات کے ساتھ مقابلہ کے واقعات حضرات ابوبکر و عمر اورعثمان رضی اللہ عنہم میں بھی بہت کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں ؛ جن کا یہاں پرذکر کرنا کتاب کی طوالت کا باعث بنے گا۔ محدث ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’ الموضوعات‘‘ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جنوں سے نبرد آزمائی کے بارے میں ایک طویل روایت بیان کی ہے۔صلح حدیبیہ کے سال حج کے موقع پریہ واقعہ پیش آیا ۔ اور چاہ ذات العلم پر یہ لڑائی ہوئی۔ انہوں نے ابو بکر محمد بن جعفربن محمد سامری کی سند سے روایت کیا ہے ‘ وہ عبداللہ بن احمد سکونی سے ‘ وہ عمارہ بن یزیدسے ؛ وہ ابراہیم بن سعد سے ؛ وہ محمد بن اسحق سے؛ ان سے یحییٰ بن عبیداللہ بن الحارث نے اپنے باپ سے حدیث بیان کی ‘ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے سال حج کے موقع پرجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عازم مکہ ہوئے تو لوگوں کو سخت گرمی اور پیاس لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورباقی لوگ اسی سخت پیاس کے عالم میں جحفہ کے مقام پر اترے اور فرمایا : ’’جو شخص چند آدمیوں کی معیت میں اپنی مشکیں لے جا کر چاہ ذات العلم سے پانی سے بھر لائے ؛ اللہ کا رسول اس کے لیے جنت کا ضامن ہوگا۔‘‘ پھر طویل حدیث بیان کی اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ نے اپنے صحابہ میں سے ایک دوسرے صاحب بھی بھیجے؛مگر وہ جنوں سے ڈر کر واپس آگئے،پھر ایک اور صاحب بھیجے؛ اورانہیں کچھ شعر بھی پڑھ کر سنائے‘ مگروہ بھی جنات سے خوف کھاکر واپس آگئے۔ پھر آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا، وہ انتہائی خطرہ کے باوجود پانی کی مشکیں بھر لائے۔ آپ نے فرمایا:’’ جس جن نے آپ کو آواز دی تھی وہ سماعہ بن غراب تھا جس نے دشمن اﷲ اصنام قریش کے شیطان مسعر نامی کو واصل جہنم کیا تھا۔‘‘ وہ بتوں کے اندر سے قریش سے باتیں کیا کرتا تھا۔ وہ میری آواز سے ڈر گیاتھا۔ ابن الجوزی کہتے ہیں ، یہ روایت موضوع اورمحال ہے، اس روایت میں الفنید و محمد بن جعفر و سکونی تینوں مجروح راوی ہیں ۔ ابو الفتح اودی کہتے ہیں ، اس حدیث کی سند میں عمارہ بھی ہے جو حدیثیں وضع کیا کرتا تھا۔ میں کہتا ہوں : ابن اسحق جو کہ اسے لوگوں سے روایت کرتا ہے ‘ خود اس کی کتابوں میں اس قسم کی کوئی حدیث نہیں ہے۔ فصل:....[حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے رجوع آفتاب اور اس پر ردّ] [اشکال]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:نوویں دلیل:’’ دو مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے سورج کو لوٹایا گیا تھا۔ ایک مرتبہ رجوع آفتاب کا واقعہ عہد رسالت میں پیش آیا۔ اور دوسری بار اس کے بعد ۔
Flag Counter