Maktaba Wahhabi

215 - 764
٭ اس رافضی کذاب نے یہ دعوی کیا ہے کہ : ’’یہ روایت اس باب میں نص کا درجہ رکھتی ہے ۔‘‘ ٭ تو اس رافضی شیطان سے پوچھا جائے گا: اے احمق انسان! کیا یہ نص اس بات پر ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ کے امورمیں آپ کی زندگانی میں شریک تھے ؛ جیسے ہارون علیہ السلام موسی علیہ السلام کے ساتھ شریک تھے ؛ کیا تم اس نص کے بموجب یہی عقیدہ رکھتے ہو؟ یا پھر تم بھی جھوٹی روایات اور باطل حکایات کا سہارا لیکر کوئی نئی چیز گڑھ رہے ہو؟ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اڑتیسویں دلیل: [اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اڑتیسویں دلیل یہ آیت کریمہ ہے: ﴿ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقَابِلِیْنَ﴾ (الحجر:۴۷) ’’ وہ بھائی بھائی بنے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔‘‘ مسند احمد میں حضرت زید بن ابی اوفیٰ سے مروی ہے کہ میں مسجد نبوی میں پہنچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس میں انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مواخات کا واقعہ بیان کیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میری روح چلی گئی ؛ اور میری کمر ٹوٹ گئی ؛ جب آپ نے اپنے اصحاب کے ساتھ یہ سلوک کیا۔ بیشک یہ مجھ پر اللہ کی ناراضگی کے سبب سے ہے ۔ اور آپ کے لیے آخرت میں عزت و کرامت ہے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مجھے اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ نبی بنا کر مبعوث کیا! میں نے تجھے (حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ) اپنے لیے منتخب کیا ہے آپ کو مجھ سے وہی تعلق ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھا‘ البتہ میرے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں کیا جائے گا۔‘‘ آپ میرے بھائی اور وارث ہیں آپ جنت کے محل میں میرے ہم راہ ہوں گے۔ اور وہاں میری بیٹی فاطمہ بھی ہو گی۔ تم میرے بھائی اور میرے دوست ہو، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ﴿اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقَابِلِیْن﴾آپٍ کی وجہ سے محبت کرنے والے ایک دوسرے کی طرف دیکھیں گے ۔ مؤاخات مناسبت اور مجانست کو چاہتی ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپ نے مواخات (بھائی چارہ) کے لیے مختص کیا تھا۔ لہٰذا آپ ہی امام ہوں گے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا] [جواب]: ٭ پہلی بات: ہم اس روایت کی صحیح سند پیش کرنے کامطالبہ کرتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ روایت مسند احمدمیں ذکر نہیں کی گئی۔اور نہ ہی امام احمد نے اسے روایت کیا ہے۔نہ ہی مسند میں اور نہ ہی الفضائل میں ۔اور نہ ہی آپ کے بیٹے نے یہ روایت نقل کی ہے۔ رافضی مصنف کا یہ کہنا کہ یہ روایت مسند أحمد میں ہے ‘ امام احمد بن حنبل پر ایک کھلا ہوا جھوٹ اور بہتان ہے۔ بلکہ یہ روایت بھی القُطیعی کے اضافات سے ہے جس میں باتفاق اہل علم جھوٹ اور موضوعات کی بھر مار ہے۔ القطیعی نے اپنی سند سے زید بن ابی اوفیٰ سے
Flag Counter