ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما آپ کے وزیروں کے مقام پر تھے۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے: میں اور ابوبکر و عمر داخل ہوئے۔ میں اور ابوبکر و عمر باہر نکلے۔‘‘ اکثر و بیشتر راتوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ بیٹھ مسلمانوں کے امور میں گفت وشنید کیا کرتے تھے۔[ اور آپ مہمات امور میں ان سے بے نیاز نہیں ہوا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مرتبہ بھی اس سے قریب قریب تھا]۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ اہل شوری جیسے : حضرت عثمان ‘ طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم کو کوئی ولایت تفویض نہیں کرتے تھے۔ اوریہ آپ کے نزدیک ان لوگوں سے زیادہ افضل تھے جنہیں ولایت تفویض کی جاتی تھی؛ مثلاً حضرت عمرو بن العاص‘ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کرام۔ اس لیے کہ ان لوگوں کو اپنے پاس رکھنے میں اس سے زیادہ فائدہ تھا کہ ان میں سے کسی ایک کو ولایت تفویض کردی جاتی ؛ جب کہ دوسرے ایسے لوگ موجود تھے جو ان کی جگہ کفایت کرسکتے تھے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی داخل ہوتے تھے۔ اورپھر ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کیساتھ ملے ہوتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں حضرات سے فرمایا تھا: ’’ اگر تم دونوں ایک بات پر متفق ہوجاؤ تو میں تمہاری مخالفت نہیں کروں گا۔‘‘
جب کوئی وفد آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں سے مشورہ کرتے۔ان میں سے ایک کوئی مشورہ دیتا اور دوسرا کوئی مشورہ ۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بدر کے قیدیوں کے بارہ میں بھی مشورہ کیاتھا۔ اس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مشورہ غالب رہا۔ اورآپ ان کے ساتھ ہی اکثر بیٹھا کرتے تھے۔ یہ بات ہر اس انسان پر عیاں ہے جو صحیح احادیث میں تدبر کرے۔ ان کی تفصیل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امارت حج کا واقعہ:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:گیارھواں سبب:’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سورۂ توبہ دے کر روانہ کیا۔ پھر ان کے پیچھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو واپس مدینہ بھیج دیں ،اور خودیہ ذمہ داری ادا کریں ۔ جو شخص ایک سورت یا اس کا کچھ حصہ پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا وہ خلافت و امارت کا اہل کیسے ہو گاجس میں تمام احکام پوری امت تک پہنچانے کی ذمہ داری ہوتی ہے ؟
[جواب]:شیعہ کا یہ قول بھی کئی وجوہات کی بنا پر باطل ہے:
پہلی وجہ : اس بات کے افتراء روایات متواترہ کے خلاف ہونے پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۹ھ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر مکہ بھیجا تھا۔[ یہ غلط ہے کہ آپ واپس بلا لیے گئے تھے ] نہ ہی آپ کو واپس بلایا گیا اورنہ ہی خود واپس آئے۔ بخلاف ازیں اس سال دورانِ حج آپ ہی امیرحج تھے، علی ان کی رعیت کے ایک فرد تھے اور انکی اقتداء میں نمازیں پڑھا کرتے تھے۔آپ جہاں جاتے وہ آپ کیساتھ جاتے اور جس بات کا حکم دیتے آپ اس کی تعمیل کرتے۔جیسا کہ آپ کیساتھ موجود باقی تمام لوگ کرتے تھے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس سے کسی کو مجال انکار نہیں ؛ اور نہ ہی اس میں کسی دو نے اختلاف کیا ہے کہ
|