اس کی سند میں محمد بن عبداللہ بھی ہے۔ اس کے بارے میں یحی بن معین کہتے ہیں : ’’ کچھ بھی نہیں ۔‘‘
اس کی دوسری سند میں ابو صلت ہروی ہے ۔جو کہ انتہائی جھوٹا اور خبیث قسم کا رافضی تھا۔ اس روایت میں ابو صلت اور عباد دونوں جمع ہوگئے ہیں ۔ اب اللہ جانتا ہے کہ کس نے دوسرے سے یہ روایت چوری کی ہے ۔
میں کہتا ہوں : اس آفت کا سہرا محمد بن عبداللہ کے سر ہے۔
یہ روایت ابن عباس کے طریقہ سے بھی مروی ہے۔ اس میں عبداللہ بن زاہر ہے ۔ ابن معین کہتے ہیں :’’ یہ کچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس کی روایتکوئی ایسا انسان لکھ سکتا ہے جس میں کوئی ذرہ بھر بھی خیر و بھلائی ہو۔‘‘
ابو الفرج ابن جوزی کہتے ہیں : انتہائی غالی قسم کا رافضی تھا۔
فصل :....جن کو اخبار کی معرفت نہ ہو؛ ان کے لیے ممکنہ طریقہ
جن کو اخبار کی معرفت نہ ہو؛ ان کی معرفت حاصل کرنے کے لیے دیگر بھی کئی ممکنہ طریقے ہیں ۔ کیونکہ بلاشک و شبہ عوام توکجا خواص بھی ایسے ہیں جن پر اسنادی اعتبار سے سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس باب میں اخباراور روایات بہت زیادہ ہیں ۔بیشک ان کی معرفت علمائے حدیث کو حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے اہل کلام اور مناظرین ان اخبار کی اسناد اور ان کے راویوں کے احوال کی معرفت سے محروم رہے ہیں ۔ کیونکہ وہ اس علم کے نہ ہونے کی وجہ سے عاجز آگئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے راہ پر چل پڑے۔لیکن یہ طریقہ ان اہل علم کا طریقہ ہے جو حدیث کے ماہرین ہیں ۔ جنہیں ان علوم کا علم ہے جو علوم دیکر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کی طرف مبعوث فرمایا تھا۔ لیکن یہاں پر ہم ایک دوسرا طریقہ ذکر کرتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں : کچھ دیر کے لیے فرض کریں کوئی متنازعہ روایات نہیں پائی جاتیں ۔ یا اس بات کا پتہ نہ چلتا ہو کہ ان میں سے کون سی روایت صحیح ہے۔ تو ہم ان دونوں روایتوں سے استدلال ترک کردیتے ہیں ۔ اور اس روایت کی طرف رجوع کرتے ہیں جو کہ اس کے علاوہ تواتر کے ساتھ معلوم ہو۔ اور اس کی صحت کا علم عقل اور عادت اور نصوص صحیحہ کی دلالت کی روشنی میں ہوتا ہو۔
پس ہم کہتے ہیں کہ : خواص و عوام کو یہ بات تواتر کے ساتھ معلوم ہے؛ اور منقولات کا علم رکھنے والے علماء اورسیرت نگاروں کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس اتنا مال نہیں تھا کہ لوگوں کودیکر ان کے دل موہ لیتے؛ نہ ہی آپ کا قبیلہ بہت بڑا تھا اورنہ ہی آپ کے موالین تھے جو آپ کی مدد کرتے۔ اور اس خلافت کو قائم کرنے میں آپ کی مدد کرتے۔اورنہ ہی آپ نے لوگوں کو اپنی بیعت کرنے کو کہا ؛ نہ ہی کسی کو ڈرایا دھمکایا اورنہ ہی کوئی لالچ دی۔جیسا کہ بادشاہوں کی عادت ہوتی ہے کہ ان کے قریبی اور موالی ان کی مدد کرتے ہیں ۔ اور نہ ہی آپ نے اپنی زبان سے منصب خلافت طلب کیا۔ اور نہ ہی کسی سے کہا کہ میری بیعت کرو۔ بلکہ آپ نے تو یہ کہا تھا کہ : ابو عبیدہ اور عمر رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کی بیعت کرلو ۔ اور جو کوئی آپ کی بیعت سے پیچھے رہا ؛ جیسے حضرت سعد بن عبادہ وغیرہ؛ تو ان کو بھی آپ نے کوئی
|