Maktaba Wahhabi

336 - 764
تکلیف نہیں دی۔ اور نہ ہی آپ کو بیعت کرنے پر مجبور کیا؛ اور نہ ہی آپ سے آپ کا کوئی حق روکا۔ اور نہ ہی کسی ساکن کو حرکت دی۔ یہ لوگوں کو اپنی بیعت پر مجبور نہ کرنے میں آپ کی کشادہ دلی کی انتہا ہے ۔ پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں نے آپ کی بیعت کی او رآپ کی اطاعت گزاری میں داخل ہوگئے۔ اور آپ کی بیعت کرنے والے وہی لوگ تھے جنہوں نے ببول کے درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔یہ حضرات مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین تھے۔ اور پھر جو کوئی ان کے بعد اور انہوں نے احسان کے ساتھ ان کی اتباع کی؛ یہی وہ اہل ایمان تھے جن کے نصیب میں ہجرت او رجہاد جیسی سعادتیں تھیں ۔ آپ کی بیعت سے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایک بھی پیچھے نہیں رہا۔ جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے بنو ہاشم کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں لوگوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ انہوں نے آپ کی بیعت کرلی تھی۔ ان میں سے صرف وہی لوگ پیچھے رہ گئے تھے جو خود خلافت حاصل کرنا چاہتے تھے رضی اللہ عنہم ۔ پھر آپ اپنی مدت خلافت میں ان لوگوں کو ساتھ لیکر مرتدین اورمشرکین سے جہاد کرتے رہے۔ آپ نے مسلمانوں سے کوئی جنگ نہیں لڑی۔ بلکہ آپ نے معاملات کو ویسے ہی درست راہ پر قائم کیاجس پر ارتداد سے پہلے تھے۔ اور اب اسلام کی فتوحات میں اضافہ ہونے لگا۔اور آپ کے عہد مبارک میں ہی اہل فارس اور اہل روم سے جہاد شروع ہوگیا تھا۔ اور کئی مسلمانوں کا محاصرہ دمشق کے دوران انتقال ہوگیا تھا۔ اور آپ اس دنیا سے ایسے تشریف لے گئے کہ آپ ایک زاہد ترین انسان تھے۔ آپ نے جو کچھ بیت المال میں داخل کیا اس سے بالکل بے نیاز و بے پرواہ تھے۔ اور نہ ہی کوئی چیز اپنے لیے خاص کی اور نہ ہی کسی قریبی کو کوئی امارت یا منصب دیا۔ پھر ان کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے۔ آپ نے شہروں کے شہر فتح کیے۔ کفار کو مغلوب کیا۔ اہل ایمان کو عزت ملی اور اہل نفاق و عدوان ذلت سے دوچار ہوئے۔ اوردین اسلام کی خوب نشرو اشاعت اور تبلیغ ہوئی۔ اور آپ نے اپنی خلافت کے کونے کونے میں عدل و انصاف کو پھیلادیا۔ خراج کے دیوان مقرر کیے۔اہل دین کے لیے عطاء کے دیوان مقرر کیے۔ اور مسلمانوں کے نئے شہر بسائے۔اور آپ اس دنیا سے اس طرح تشریف لے گئے کہ آپ اس دنیا سے بالکل بے رغبت اور زاہد تھے۔ نہ ہی کسی مال میں متلوث ہوئے؛ اور نہ ہی اپنے کسی قریبی کو کسی عہدے پرفائز کیا۔ یہ بات ہر ایک جانتا ہے۔ جہاں تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے تو آپ نے اپنی خلافت کی بنیاد اسی معاملہ پر رکھی جس پر لوگوں کو اس سے پہلے استقرار حاصل ہوچکا تھا۔ سکون و وقار؛ہدایت و رحمت اور کرم گستری۔ لیکن آپ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسی قوت اور سیاست نہ تھی۔ اور نہ ہی ان جیسا کمال زہد و عدل آپ کو حاصل تھا۔ اسی وجہ سے بعض لالچی لوگ آپ میں طمع کرنے لگے اور انہوں نے دنیا کو وسعت دی۔اور اپنے اقارب کو ولایات اور اموال میں داخل کیا۔ اور آپ کے اقارب کی وجہ سے ولایات اور اموال میں کچھ ایسی باتیں پیش آئیں جن کا انکار کیا جانے لگا۔ پس لوگوں کی دنیا میں رغبت ؛اور اللہ
Flag Counter