اور اہلِ عصبہ کی اولاد مراد ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اولادمیں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بلایا ؛ مستورات میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اور مردوں میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو۔ظاہر ہے کہ عصبات میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین رشتہ دار حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے، پھر آپ نے ان پر اپنی چادر بھی تان دی تھی۔مباہلہ میں قریبی رشتہ داروں کو شامل کیا جاتا ہے ، دور کے رشتہ داروں کو اگرچہ افضل ہوں تب بھی شامل نہیں کیا جاتا۔کیونکہ اس سے مقصود حاصل نہیں ہوتا۔ مراد یہ تھی کہ وہ بھی اپنے اقارب کو بلائیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقارب کو بلایا ہے۔ انسانی نفوس قریبی رشتہ داروں پر بڑی شفقت کے پیکر ہوتے ہیں ۔ایسی شفقت غیروں کے بارے میں نہیں پائی جاتی۔نصاری جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ اور ان کو اس بات کا بھی علم تھا کہ اگر انہوں نے مباہلہ کیا تو اس کی ساری مصیبت ان پر ہی گرے گی۔اس وجہ سے انہیں اپنی جانوں کا اوراپنے عزیز و اقارب کا خوف لاحق ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ مباہلہ کرنے سے پیچھے ہٹ گئے۔ وگرنہ انسان پر کبھی ایسا بھی موقع آجاتا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ میں اگر مربھی جاؤں تو میرا بیٹا زندہ رہے ۔بوڑھی عمر کا انسان مرنے کو بھی گوارا کرلیتا ہے جب اس کے اہل و عیال و اقارب عیش و آرام میں رہ جائیں ۔ اس کی مثالیں بہت ساری موجود ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں سے مطالبہ کیا گیا کہ مباہلہ کے لیے اپنے آپ کو اپنے بیٹوں کو ؛ اپنی عورتوں کو اورقریبی مرد رشتہ داروں کو لائیں ۔
آیت مباہلہ ۱۰ ھ میں وفد نجران کے وارد مدینہ ہونے پر نازل ہوئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس اس وقت زندہ تھے، باقی چچا سب فوت ہو چکے تھے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو سبقت اسلام حاصل تھی اور نہ آپ کے ساتھ کوئی اورخصوصیت تھی جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت تھی۔جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زادوں میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسا کوئی بھی نہ تھا۔حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اس سے پہلے سن آٹھ ہجری میں غزوہ مؤتہ میں شہید ہوچکے تھے۔
ان لوگوں کا متعین ہونا اس وجہ سے تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقارب میں کوئی بھی اور ایسانہیں تھا جو ان کے قائم مقام ہو سکتا۔ مگر اس سے یہ واجب نہیں ہوتا کہ یہ کسی بھی چیز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مساوی تھے۔ بلکہ اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ اس وجہ سے آپ باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے علی الاطلاق افضل ہوں ۔بلکہ مباہلہ کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک گونہ فضیلت حاصل ہے۔اور یہ فضیلت بھی حضرت علی ؛ حضرت فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے مابین مشترک ہے۔ یہ امامت [ولایت ] کی خصوصیات میں سے نہیں ہے۔ اس لیے کہ امامت کے خصائص عورتوں کے لیے ثابت نہیں ہوسکتے۔ اور اس کا تقاضا یہ بھی نہیں ہے کہ آپ کو مباہلہ کے لیے ساتھ لینے کی وجہ سے آپ باقی تمام صحابہ کرا م سے افضل ہوگئے۔جیسا کہ اس سے یہ بھی واجب نہیں ہوا کہ حضرت فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم باقی تمام صحابہ سے افضل ہوجائیں ۔
[آیت مباہلہ سے استدلال ]:
[اشکال]:شیعہ مصنف کا یہ قول کہ: ’’ اگر کوئی اور شخص اہل بیت کے مساوی ہوتایا اللہ تعالیٰ کے ہاں دعا کی قبولیت
|