ہیں ۔ اور مخلوق میں سب سے بڑے کفار اسماعیلیہ اور نصیریہ اور ملحدین سے محبت اور دوستی رکھتے ہیں ۔ اگرچہ انہیں کافر بھی کہتے ہیں ۔ مگر ان کے دل اور ان کے بدن مہاجرین و انصار اور تابعین کرام رحمہم اللہ جیسے سچے مسلمانوں اور جمہور اہل اسلام کی نسبت ان کافروں کی طرف زیادہ مائل رہتے ہیں ۔
اہل ہوی و اہل بدعت فرقوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے؛ حتی کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو علم کلام ‘ فقہ ‘ حدیث اور تصوف کی طرف منسوب کرتے ہیں ؛ مگر ان میں اس کا ایک شعبہ پایا جاتا ہے ۔ جیسا کہ اس کا ایک شعبہ ان اہل اھوا میں پایا جاتا ہے جو کہ اہل قلم اور تجار میں سے بادشاہوں اور وزیروں کے دروں پر حاضری دینے والے ہوتے ہیں ۔ مگر رافضیوں میں تمام بدعتی فرقوں سے بڑھ کر گمراہی و سرکشی اور جہالت پائی جاتی ہے ۔
امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پچیسویں دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پچیسویں دلیل یہ آیت قرآنی ہے:
﴿فَسَوْفَ یَاتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ﴾ (المائدۃ:۵۴)
’’اللہ تعالیٰ ایسی قوم کولے آئے گا جو اس سے محبت کرتے ہوں گے ‘ اور اللہ ان سے محبت کرتا ہوگا۔‘‘
ثعلبی کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ دیگر صحابہ سے افضل تھے۔ لہٰذا وہی امام وخلیفہ ہوں گے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]
[جواب]:اس کا جواب کئی لحاظ سے دیا جاسکتا ہے :
پہلی بات:....ہم کہتے ہیں کہ یہ ثعلبی پر افتراء ہے، ثعلبی اس آیت کی تفسیر میں لکھتا ہے:’’علی بن ابی طالب و قتادہ و حسن رضی اللہ عنہم کا قول ہے کہ اس سے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء مراد ہیں ۔مجاہد رحمہ اللہ نے اس سے اہل یمن کو مراد لیا ہے۔‘‘
انہوں نے حضرت عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ والی حدیث کوبطور دلیل پیش کیا ہے کہ اس سے مراد اہل یمن ہیں ۔اور حدیث میں آتا ہے : ’’ تمہارے پاس اہل یمن آئیں گے ۔‘‘ [رواہ البخاری ؛ کتاب المغازی]
ثعلبی نے تو نقل کیا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اس سے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء مراد لیتے ہیں ۔
جب کہ باقی ائمہ تفسیر میں سے امام طبری رحمہ اللہ نے مثنی سے روایت کیا ہے؛ وہ کہتے ہیں : ہم سے عبد اللہ بن ہاشم نے بیان کیا؛ وہ سیف بن عمر سے ؛ وہ ابی روق سے ؛وہ ضحاک سے ‘ وہ ابو ایوب سے اوروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس آیت:
﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ﴾
’’ اے ایمان والو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہوجائے گا‘‘
کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں :آپ فرماتے ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ کو مؤمنین کا علم تھا ؛ اور یہ برے معانی منافقین کی مذمت میں ہیں ؛ اللہ تعالیٰ کو ان کے بارے میں معلوم تھا کہ یہ اپنے دین سے پھر جائیں گے؛ اس لیے فرمایا: ﴿مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ
|